Wednesday, 12 December 2012

اف یہ امتحانات

اف یہ امتحانات
 
فصیح اﷲ حسینی
ویسے تو سال کے اندر چار موسم ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ سال کے اندر چار سے بھی زیادہ موسم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مہنگائی کا موسم، جو کہ رمضان کے مہینے میں آتا ہے۔ (لیکن کچھ عرصہ سے یہ موسم سارا سال رہنے لگا ہے) بارش کا موسم جو کہ جون جولائی میں آتا ہے۔ لیکن ہمیں ان موسموں سے کیا لینا، چونکہ ہم طالب علم ہیں اس لیے اﷲ تعالیٰ نے ان علم کی طلب رکھنے والوں کیلئے بھی (جن میں ہمارا بھی شمار ہوتا ہے) ایک موسم رکھا ہے اور یہ موسم ہوتا ہے امتحانات کا۔ اب ہم اس موسم کو اپنی خوش نصیبی سمجھیں یا بدنصیبی ۔ لیکن بہرحال ہر طالب علم کو اس موسم کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ہم بھی کیا لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ مضمون ہے یا فلسفہ کا لیکچر! خیر اب ہم آپ کو اپنے اصل موضوع کی طرف لے کر چلتے ہیں ۔ دراصل ہم آپ کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ امتحانات کے موسم میں آنے والی آفات اور مشکلات سے کس طرح نمٹا جائے اور کس طرح ان کا مقابلہ کیا جائے کہ اتنا بڑا ’’سونامی‘‘ آکر گزر جائے اور آپ کو پتہ نہ چلے۔ اب یہ نہ پوچھئے گا کہ ہم آپ کو یہ باتیں کیوں بتا رہے ہیں اور ہم ہی کیوں بتا رہے ہیں۔ خیر جب بھی امتحانات کا موسم شروع ہوتا ہے تو ہر طالب علم ان چار مسائل کا شکار پریشان پریشان پھرتا نظر آتا ہے۔ ۱۔ پہلا مسئلہ: جو ہر طالب علم کو درپیش ہوتا ہے وہ یہ کہ کسی طرح جلدی جلدی ہوم ورک مکمل کیا جائے۔اگست کے مہینے سے سیشن شروع ہوتا ہے تو نیا نیا کورس سمجھنے کیلئے ایک دو مہینے لگ جاتے ہیں اور کام ۔۔۔ آگے والا ہوتا نہیں اور پچھلے والا سنبھلتا نہیں۔ اپنی کاپیوں کو لال لال نشانات سے بچتے بچاتے وقت گزرتا چلا جاتا ہے۔ رہے آخر کے تین مہینے تو امتحانات سر پر کھڑے ہوتے ہیں اور یہ سوال کھڑا ہو جاتا ہے کہ اپنا کام مکمل کریں یا نوٹس لے کر یاد کرنا شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ سوچتے سوچتے امتحانات کا مہینہ بھی آجاتا ہے۔ بہرحال کچھ عقلمند طالب علم یہ سوچ کر دیر آید درست آید کے مصداق نوٹس خرید لیتے ہیں۔ ۲۔ دوسرا مسئلہ: دوسرا مسئلہ جس کا سامنا تمام طالبعلموں کو ہی کرنا پڑتا ہے وہ یہ کہ یاد کریں ؟ کہاں سے کریں؟ اور کیسے کریں؟ اور ہر طالب علم امتحانات کے سوالات یاد کرنے کے بجائے ان تین ’’ک‘‘ کے جوابات تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بالآخر ضمیر گواہی دیتا ہے کہ ’’اﷲ مالک ہے۔‘‘ ۳۔ تیسرا مسئلہ: یہ مسئلہ کچھ بھی یاد نہ ہونے کی وجہ سے کھڑا ہوجاتا ہے کہ یاد تو کیا نہیں اب نقل پر ہی آسرا ہے۔ اب اس مسئلے کے حل کیلئے سرتوڑ (اور ٹانگیں جوڑ) کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ نقل کیلئے بھی عقل کی ضرورت ہے۔ لہٰذا جو عقل سارا سال استعمال ہونے سے قاصر رہتی ہے۔ اس کا استعمال ان مواقع پر ہوتا ہے۔ شاید اسی دن کیلئے یہی عقل بچا کر رکھی جاتی ہے۔ کچھ طلبہ پتلون کی جیبوں میں اضافہ کر لیتے ہیں۔ کچھ طلبہ امتحانی سینٹرز کی معلومات کیلئے چکر کاٹتے رہتے ہیں اور کچھ کو نقل کرنے کے چکر میں عقل بھی کھو بیٹھتے ہیں اور بنیان اور شرٹ کے اندرونی حصے میں خود ہی جیبیں بنانا شروع کر دیتے ہیں اور ان کی اس حرکت سے شیطان بھی اپنے آپ شرمندہ ہوجاتا ہے۔ یہاں پر اکبر الہ آبادی کے شعر کا مصرعہ کچھ یوں فٹ ہوتا ہے۔ ’’افسوس کہ ابلیس کو اسکول کی نہ سوجھی‘‘ ۴۔ چوتھا مسئلہ: چوتھا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ جناب کسی طرح پیپر پتہ چل جائے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے وہ طالب علم جو رات کو جلدی سو جاتے ہیں۔ وہ امتحانات کے دنوں میں بارہ بجے تک جاگ کر کسی دوست کی فون کال کا انتظار کرتے ہیں اور فون کرنے والے سے فریاد کرتے ہیں کہ بھلا کر تیرا بھلا ہوگا اور فقیر کی صدا کیا ہے میرے شریک غم طالب علم ساتھیو، جب ہم نے ان مسائل کے حل کیلئے عمر و عیار کے ساتھیوں کی طرح خیال کے عیار اور فکر کے جاسوس چاروں طرف دوڑائے تو ہم ان مسائل کے درج ذیل حل تلاش کر سکے۔ ۱۔ پہلے مسئلہ کا حل جو ہمیں سمجھ میں آیا وہ یہ کہ نہ تو آپ کو ہوم ورک مکمل کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی نوٹس خرید کر اپنے اماں ابا کی حلال کی کمائی ضائع کرنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ سیدھا سیدھا یہ کریں کہ موقع پا کر کلاس کے بہترین طلبہ میں سے کسی ایک کی کاپیاں غائب کر دیں۔ اس سے پہلے کہ ان کو اس واقعہ کی اطلاع ملے آپ خود اس کو جا کر بتائیں کہ یہ حادثہ رونما ہو چکا ہے۔ (یعنی چور مچائے شور) اور امتحانات کے اختتام تک وقتاً فوقتاً اس سے اظہار ہمدردی بھی کرتے رہیں۔ ۲۔ دوسرے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں اور توکل علی اﷲ کا بہترین نمونہ بن کر دکھائیں۔ ساتھ ساتھ اﷲ سے دعا کریں اور استغفار طلب کریں۔ کہتے ہیں کہ دعا کے ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے یہ کر لیں کہ امتحان کے دن کاغذی دوا بھی ساتھ رکھ لیں تاکہ پیپرز کے دوران افاقہ ہوسکے۔ ۳۔ تیسرا مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہے۔ اس کا سیدھا سا حل یہ ہے کہ حل شدہ پرچہ جات اپنے ہمراہ ضرور رکھیں۔ ۴۔ چوتھے مسئلہ کے حل کیلئے اطلاعاً عرض ہے کہ بورڈ والے بھی آپ کی طرح کاہل الوجود ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ محنتی نہیں ہوتے ۔ وہ پورا پانچ سالہ پرچہ جات سے ہی بناتے ہیں اس لیے آپ کو بھی پیپر نکلوانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مسئلہ نمبر3کے حل پر فوری عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ تو جناب میرے طالب علم ساتھیو! یہ ان مسائل کے حل ہم نے آپ کو بتائے ہیں جن کا آپ کو امتحانات کے دنوں میں شکار ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ان مشوروں پر عمل کرنے سے پہلے یہ سوچ لیجئے گا کہ اگر آپ فیل ہو گئے تو ہم بری الذمہ ہوں گے کیونکہ مشورہ مفت ہے لیکن جانے سے پہلے ایک بات کی گارنٹی ہم ضرور دیں گے کہ ہمارے مشوروں پر عمل کرنے سے سپلیاں آپ کے قدم ضرور چوم سکتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہونے والے امتحان کا نتیجہ آخرت میں بھی خراب آسکتا ہے۔ *۔۔۔*۔۔۔*

No comments:

Post a Comment