مئی کے مہینے کی آمد کے ساتھ ہی درختوں پر ہری ہری کیریاں آنا شروع ہو گئیں تھیں۔ ایسے ہی ایک کیریوں سے بھرے درخت کے نیچے بہت سارے بچے اپنے مختلف اوزاروں کے ذریعے کیریاں گرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ’’ارے یہ کیا کررہے ہو۔ تھوڑا صبر نہیں ہوتا۔ جب پک جائیں تو کھا لینا۔ اس وقت یہ آم بھی بن جائیں گی۔‘‘ انکل تیس مار خان نے آتے ہی بچوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ ’’ لیکن انکل ہمیں تو یہ کچی ہی کھانی ہیں۔‘‘احمد نے معصوم صورت بنا کر کہا۔ ’’ارے انکل یاد آیا۔ آپ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ کچی کیریاں درخت کے بغیر بھی آم بن جاتی ہیں۔‘‘ اطہر نے اپنا ڈنڈا نیچے کرتے ہوئے کہا۔ ’’او بھئی ایسے نہیں بن جاتی بلکہ آٹے کے اندر دبانا پڑتا ہے۔‘‘ فاروق فوراً بولا جسے امی کا کیری کو آٹے میں دبانا یاد آگیا۔ ’’ارے بھئی ، تم بچے اسکول میں پڑھتے ہو لیکن پھر بھی دقیانوسی باتیں کرتے ہو۔ اب نیا زمانہ آگیا ہے۔ کچی کیریوں کو ایک ڈبے میں ایک خاص قسم کا کیمیکل رکھ کر آم بنایا جاتا ہے۔‘‘ انکل تیس مار خان نے رعب سے کہا۔ ’’اچھا انکل تو پھر تو آپ وہ کیمیکل آرام سے بنا سکتے ہیں ناں۔ آخر کو آپ اتنے بڑے بڑے کام کر چکے ہیں۔‘‘ خالد نے انکل کو مسکا لگاتے ہوئے کہا۔ ’’ارے ۔۔۔ رے۔۔۔ ہاں ہاں۔۔۔ کیوں نہیں، بلکہ یہ کیمیکل تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ او میرا مطلب ہے کیمیائی تجربہ ہے۔ میں تو لاہور کے جامعہ پنجاب میں ایک بہت بڑی تجربہ گاہ میں معاون سائنسدان کی حیثیت سے کام کرتا رہا ہوں اور کیمیائی تجربوں کے لیے سارے مینڈک میں ہی پکڑ کے لاتا تھا۔ ’’اچھا انکل، تو میں ابھی مینڈک پکڑ کے لاتا ہوں۔ اس سے آپ کیریاں پکانے والا کیمیکل بنا دیجئے گا۔ ‘‘ فہد نے جوش سے کہا۔ ’’اوہو نہیں بھئی، ایک کیمیائی تجربے کے لیے اور بھی بہت ساری چیزیں چاہیے ہوتی ہیں۔ مثلاً چولہا اور دیگر عناصر وغیرہ وغیرہ۔‘‘ ’’ انکل ہمیں کچھ ایجادات کے بارے میں تو بتائیں؟‘‘ ایک بچے نے سوال کیا۔ ’’ہاں ہاں کیوں نہیں، بلب ایڈیسن نے ایجاد کیا، ریڈیو نیوٹن نے ایجاد کیا۔ تھرمامیٹر اور ایکسرے گلیلیو نے ایجاد کیں اور ہم بھی کسی سے کم نہیں ہم نے بھی بہت سی چیزیں بنائیں۔‘‘ انکل نے فخر سے کہا۔ ’’ اچھا انکل اپنا تجربہ گاہ کا کوئی واقعہ تو سنائیں۔‘‘ فاروق نے کہا۔ ’’ ہاں تو سنو! جب میں فزکس لیب اپنے نگران پروفیسر حشمت جو کہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے آئے تھے ان کی زیر نگرانی تجربہ گاہ میں کام کرتا تھا تو وہ مجھ سے پہلے تو صرف نلکیاں اور دوسرے ٹیڑھے میڑھے برتن دھلواتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کے تجربوں کو ان کے شاگردوں کے ساتھ کھڑے ہو کر میں بھی غور سے دیکھتا۔ یوں میں بھی ایک سائنسدان بن گیا۔ ‘‘ انکل نے اتنا کہہ کر کالر کو جھاڑا۔ ’’تو انکل ان کے شاگردوں میں سے کوئی سائنسدان نہیں بنا۔‘‘ اطہر نے تجسس سے کہا۔ ’’ارے ان نالائقوں کو کچھ آتا تو سائنسدان بنتے ناں۔۔۔!! اب دیکھو ایک دن پروفیسر حشمت نہیں آئے تو اس دن مجھے تجربے کرانے پڑے۔‘‘ ’’اچھا انکل۔‘‘ سب بچے منہ کھول کر حیرت سے بولے۔ ’’ہاں نا۔۔۔ میں نے جرنل کھولا تو سب سے مشکل تجربہ کرانے کا سوچا۔ ’’ لیکن انکل آپ کو کیسے پتا چلا کہ وہ مشکل ہے۔‘‘ ’’ بھئی اس کی احتیاطی تدابیر میں لکھا تھا کہ اس تجربے کو بند کمرے میں کریں کیوں کہ دھماکہ بھی ہو سکتا ہے۔ اچھا تو میں کیا کہہ رہا تھا۔ ہاں پھر میں نے اپنے شاگردوں کو پہلے سامان جمع کرنے کو کہا۔ جب سب کچھ تیار ہو گیا تو میں نے ایک شارٹ کٹ مارا۔‘‘ ’’ لیکن وہ کیا انکل۔‘‘ ’’ میں نے بننے والے کیمیکل کی خصوصیات والا صفحہ جلدی سے کتاب میں پلٹا اور دیکھا کہ وہ کیمیکل ہرے رنگ کا ہوتا ہے۔ بس اب مجھے تجربہ سے پہلے ہی پتا چل گیا کہ کیابنے گا۔‘‘ ’’تو انکل وہ ہرے رنگ کا کیمیکل ہری کیریوں کو پکا دیتا ہے۔‘‘ احمد کو کیری کو آم بنانے کی پڑی ہوئی تھی۔ ’’اوہو نہیں بھئی۔ وہ دوسرا کیمیکل ہوتا ہے۔ اچھا سنو پھر آگے کیا ہوا۔ اچھا استاد وہی ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کو اپنے ہاتھ سے تجربہ کرنے کا موقع فراہم کرے۔ تو میں نے بھی اپنے شاگردوں سے کہا کہ یہ تجربہ فوراً کرکے دیکھو۔‘‘ ’’ تو انکل آپ کھڑے صرف دیکھتے ہی رہے۔‘‘ ’’ ارے دیکھتا کیا رہا؟ اتفاق سے میرے ہاتھ سے ایک جامنی سفوف والی کوئی شیشی لڑھک گئی جس پر فاسفورس لکھا تھا۔ اب دیکھتے ہی دیکھتے آگ بھڑک اٹھی۔‘‘ ’’ ہیں انکل ۔۔۔ آگ۔‘‘ ’’ہاں۔۔۔ آگ۔۔۔ لیکن وہ تو اچھا ہوا کہ مجھے اپنی نویں جماعت میں آکسیجن گیس بنانے کا تجربہ یاد تھا۔ سو میں نے جلدی سے اس تجربے سے آکسیجن بنائی اور اسے اس آگ پر انڈیل دیا۔ جس سے وہ بجھ گئی۔‘‘ ’’تو انکل پھر آپ نے وہ تجربہ تو ملتوی کر دیا ہوگا۔‘‘ ’’ارے نہیں۔ بس وہ میرا رنگسازی کا تھوڑا سا تجربہ کام آگیا جو کسی سائنسدان کے پاس نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے شاگرد کو نیلا پاؤڈر اور پیلی گندھک کا سفوف ملانے کو کہا۔ اب تم لوگوں کو تو پتا ہے کہ نیلا اور پیلا رنگ ملانے سے سبز رنگ بنتا ہے۔ بس اس طرح وہ میرا تجربہ کامیاب رہا اور ایک ہری چیز ایجاد ہو گئی۔‘‘ ’’واہ بھئی واہ۔‘‘ سب بچے حیران تھے جبکہ اطہر ایک کونے میں بیٹھا مسکرا رہا تھا۔*
|
Wednesday, 12 December 2012
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment