محمدالیاس ضیاء
|
رات کے دوسرے پہر برآمدے میں عین لائٹ کے نیچے کرسی ڈالے ماسٹر اجمل کتاب کے مطالعے میں مشغول تھے۔سامنے لان کی گھاس پرچاند کی دھیمی دھیمی روشنی پڑرہی تھی جبکہ رات کی رانی کی میٹھی میٹھی خوشبودل ودماغ کوتازگی بخش رہی تھی۔گرمی کی اس رات میں ہوا کے جھونکے اور بھی خوشگور احساس پیدا کررہے تھے۔انکے برابر میں ایک اور کرسی رکھی ہوئی تھی جسکا رخ ماسٹر جی کی طرف تھا اور اس پر چھ سات موٹی موٹی کتابیں مختلف موضوعات کی رکھی ہوئی تھیں۔سلطان فتح علی ٹیپوکی زندگی اور انکے کارناموں پر ایک کتاب انکے ہاتھ میں تھی جسکامطالعہ وہ بڑی دلچسپی سے کررہے تھے۔اور دلچسپی سے کیوں نہ کرتے کہ تاریخ توان کا پسندیدہ موضوع تھا اورپھر آج تووہ ایسے کارنا مے پڑھ رہے تھے جو ہندوستان کی تاریخ میں ایسے چمکتے ہیں جیسے رات کے اندھیرے میں چودھویں کاچاند۔جرات اوربہادری کی وہ لازوال داستان کہ جورہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی اور جس کو پڑھ کر آج وہ اپنے دل میں ایک جذبہ اورولولہ محسوس کررہے تھے۔ وہ پڑھ رہے تھے کہ جس طرح ٹیپونے بیک وقت اندرونی بغاوتوں اور بیرونی دشمنوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا وہ ثابت کر تا ہے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اگر انسان ہمت اور حوصلے سے کام لے توبڑی سے بڑی مشکل بھی اس کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔ٹیپو کے بارے میں چند ایک مضامین تووہ مختلف اخبارات اور رسائل میں پڑھ چکے تھے مگرآج باقاعدہ طور پر پہلی مرتبہ وہ سلطان کی زندگی پرکوئی کتاب پڑھ رہے تھے ۔وہ کتاب کے مطالعے میں ایسے گم ہوئے کہ ایک سماں بندھ گیا جیسے وہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں۔انہیں محسوس بھی نہ ہوااور انکی آنکھوں کے سامنے ایک منظر قائم ہوگیا بالکل جیسے اسکرین پر کوئی تصویر ابھرتی ہے۔ماسٹر جی نے دیکھاکہ ان کے سامنے ٹیپو کھڑاہے۔اسکے ایک ہاتھ میں تلوار ہے اوروہ مسکرارہا ہے انہوں نے حیرانگی سے ٹیپو سے سوال کیاکہ آپ ہی ہیں ٹیپو ......شیرِمیسور...؟ ٹیپو:( تھوڑاسا مسکراتے ہوئے)ہاں۔۔۔میں ہی ٹیپو ہوں۔ آپ نے مجھے شیرِمیسورکہااس کامطلب ہے کہ یہ قوم میری قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ماسٹراجمل:(جذباتی اندازمیں) ہاں بالکل!اس قوم کا ہروہ فرد جو تیرے بارے میں جانتا ہے وہ آج بھی تیری بے مثال جراء ت اورہمت کوسلام کرتا ہے ۔ ٹیپو:(مسکراکراوپرنیچے سرہلاتے ہوئے)’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘۔ ماسٹراجمل:میں پڑھ کر حیران ہوں کہ آپ نے بیک وقت تین قوتوںیعنی نظام حیدرآباد،مرہٹوں اور انگریزوں کا کس طرح مقابلہ کیااوریہ کس طرح ممکن ہوا۔ ٹیپو:(مسکراتے ہوئے)ماسٹر جی!مجھے میدانِ جنگ ہی ورثے میں ملا تھا۔میرے والد(سلطان حیدر علی) نے بھی ساری زندگی لڑتے ہوئے گزاری تھی۔اور ویسے بھی جذبے زندہ ہوں تو کوئی کام نا ممکن نہیں ہوتا۔ ماسٹر اجمل:مگر اے بہادر باپ کے بہادر بیٹے! انگریزوں سے دوستی کرکے آپ اپنے دشمن مرہٹوں اورحیدر آبادی نوابوں سے جان چھڑانے اور اپنی سلطنت کو بھی بچانے میں کامیاب ہوسکتے تھے ۔ ٹیپو:(افسوسناک قہقہہ لگاتے ہوئے) دوصدیاں گزر جانے کے بعدبھی میری قوم کو یہ بات سمجھ نہ آئی (اچانک سنجیدہ ہوتے ہوئے)انگریزوں کی دوستی مرہٹوں کی دشمنی سے زیادہ خطرناک تھی ماسٹرجی ی ی۔۔۔ ماسٹراجمل:میں نے کہیں پڑھایاشاید سناہے کہ جس دن تیراجنازہ اٹھااس دن آسمان بھی رویا تھا۔خوب پانی برسا اور خوب بادل گرجا تھا۔ ٹیپو:ماسٹر جی میں تو بے نیاز تھاکہ کون رویا اور کون برسا مگر وہ جنازہ صرف میرا جنازہ تو نہیں تھابلکہ ہندوستان کی آزادی اور مسلمانوں کی بادشاہت اور اقتدار کا جنازہ تھا۔جس دن میرا جنازہ اٹھا کیا اس کے بعد سے آج تک ہندوستان کے لوگ آزاد ہوئے؟ ماسٹراجمل: (تلملاتے ہوئے )مگر اے شہیدِوفا!تجھے شکست ہوئی کیسے ؟توتوجرأ ت کا پہاڑ تھا؟ ٹیپو:(غمناک آواز میں)آہ۔۔۔ وہی اپنے لوگوں کی غداری نے ہندوستان کو ڈبودیا۔ورنہ(اچانک غصے میں آتے ہوئے) مجھے قسم ہے ربِ کعبہ کی ہندوستان سے صرف انگریزوں کی لاشیں جاتیں لاشیں۔ ماسٹر اجمل :میں چاہتاہوں کہ آپ کے کارنامے خود آپ سے سنوں ۔ ٹیپو:میرا کوئی کارنامہ نہیں ہے ماسٹر جی! میں نے تو بس ہندوستان کو انگریزوں سے بچانے کیلئے اس کے دفاع کی آخری جنگ لڑی تھی اوربھلامیراکیا کارنامہ ہے؟؟ ماسٹراجمل:(اداسی کے ساتھ )اور اس آزادی کے دفاع کی جنگ میں اپنی جان بھی قربان کردی...یہی تو کارنامہ ہے... آپ نے اتنی بڑی قربانی دی مگر اے شہید!نئی نسل توتجھے جانتی تک نہیں۔ ٹیپو:(ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے)ہاں ماسٹرجی نئی نسل تو صحابہ کو نہیں جانتی کہ جن کے ذریعے اسلام ہم تک پہنچا۔ ماسٹر اجمل :مگراس کاذمہ دار کون ہے؟ ٹیپو:اس کے سب سے بڑے ذمہ دار آپ ہیں ماسٹر جی !!آپ ایک استاد ہیں۔ آپ کااس قوم کے بچوں کے ساتھ براہِ راست رابطہ ہے آپ نے کبھی بتایا ان کو ہمارے بارے میں؟بتائیں؟؟استادہی نہیں بتائے گا توکیا فرشتے اتریں گے انکو بتانے کیلئے؟؟ یہ سن کر اچانک ماسٹر اجمل کو ایک جھٹکا سا لگا اور وہ کرسی سے گرتے گرتے بچے اوران کی آنکھ کھل گئی۔وہ اس بات پر انتہائی حیران ہوئے کہ وہ نیند کے اتنے کچے تو نہ تھے پہلے بھی انہوں نے رات رات بھر جاگ کر مطالعہ کیا تھامگرزندگی میں کبھی بھی اس طرح انہیں نیند نہیں آئی تھی۔پھر آج نہ جانے کیا ہو گیا تھا۔دوسرے دن وہ کلاس میں داخل ہوئے تو ان کاپہلا سوال تھاکہ آج تاریخ کیا ہے؟جواب ملا۔۔۔ ۴مئی۔انہوں نے پھرسوال کیا کوئی بتاسکتاہے کہ۴مئی کادن ہندوستان کی تاریخ میں کیوں اہم ہے۔کلاس میں خاموشی چھا گئی۔ماسٹراجمل پھر گویا ہوئے،یقیناآپ لوگوں کے علم میں نہیں ہوگاکہ۴مئی۱۷۹۹ء کوٹیپو سلطان شہید ہوا۔ٹیپو سلطان کون تھا؟ماسٹراجمل نے تیسرا سوال کیا۔ کلاس میں خاموشی چھائی رہی۔ انہوں نے خودہی اس خاموشی کوتوڑا۔ میں آپ کو آج تفصیل سے بتاؤں گاکہ وہ کون تھااور اس نے کون سا خاص کام کیا۔اچانک ان کی نظر دروازے کی طرف اُٹھ گئی۔ انہیں ایسا لگاجیسے وہ بیداری میں خواب دیکھ رہے ہوں۔انہیںیوں محسوس ہوا جیسے ٹیپو دروازے کی چوکھٹ پر کھڑامسکرارہا ہواور کہہ رہاہوواہ ماسٹر جی.. واہ کمال کردیا آپ نے۔ ہاں اب ہو گی نئی نسل کو ہمارے بارے میں شنا سا ئی اوراب اِن کوپتاچلے گا کہ ہم کون تھے اور کہاں گئے ۔اور..ہاں ان کو یہ بھی بتائیے کہ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہترہے‘‘۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
Tuesday, 11 December 2012
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment