Wednesday, 12 December 2012

’اپنی اپنی دنیا میں خوش‘‘

’اپنی اپنی دنیا میں خوش‘‘
 
ریحانہ کوثر
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اسکول پڑھتے تھے۔ اور ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے ہیں۔ بہت اچھی شاعری تھی۔ اسکول میں بھی سب شاعرہ کہہ کرپکارتے تھے اورانٹرویل کے بعد سب دوستوں کو میں اپنی شاعری سناتی تھی۔ مس بہت داد دیتیں۔ کلاس ٹیچربھی ہم سے بہت پیارکرتی تھیں اور سب گھروالے بھی بہت پیارکرتے تھے۔ وقت گزرتارہا اور میری شاعری چمکنے لگی میں مختلف رسالوں خط بھیجتی رہتی۔ تاکہ کسی بھی طرح میں شاعری میں نام کماؤں مجھے بچپن ہی سے چاند اورآسمان سے بہت پیارتھا۔ اتنا کہہ لیں کہ جنون کی حدتک ۔ کبھی کبھارتو بیٹھے بٹھائے میں چاند پرشعرلکھنا شروع کردیتی۔ ایک دفعہ ابّوکی ٹانگ میں درد ہورہی تھی ابّو نے کہا بیٹا ٹانگیں دبادو میں ٹانگیں دبانے بیٹھتی تو شعرسوچنے لگ جاتی اور کچھ ہی لمحوں بعد چہک اٹھتی وجہ یہ ہوتی کہ میں اپنے شعر بنانے میں ہوجاتی اور ابوّ سے کہتی کہ پانی پی کر آتی ہوں میں جلدی سے کمرے میں جاتی اور جلدی سے صوفے کی گدّی اٹھاکر کاپی اٹھاتی۔ اور شعر لکھ بیٹھتی اوربہت خوش ہوتی۔ جب زندگی میں پہلی بار میرا شعر رسالے میں چھپا تھا تو میری آپی کی دوست نے اسے فون پر بتایا کہ میرا شعر چھپاہے میری خوشی کی تو انتہا نہ رہی تھی۔ انہی دنوں ہم نئے اسکول میں داخل ہوئے تھے جس کی خریداری کے لئے آپی میں اور چھوٹی بہن عائشہ ابوّ کے ساتھ گئے تھے۔ ہم نے جب خریداری کرلی تو ابوّ نے کہاکہ بیٹا پیدل جانا ہے یا گاڑی میں بیٹھ کر۔ مجھے اس قدرخوشی تھی کہ میں نے کہا پیدل چلتے ہیں اورجاتے ہوئے رسالہ لے آتے ہیں ابو نے کہا ٹھیک ہے پیدل چلتے ہیں۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ اندھیرا چھایا ہوا تھا مگر لائٹوں کی وجہ سے اندھیرے کا کچھ خاص علم نہیں ہورہا تھا جوں توں کرکے ہم رسالے کی دکان پر پہنچے اور رسالہ خریدا میری خوشی کی انتہا نہ تھی جی چاہ رہا تھا کہ رسالے کی دکان پر ہی اچھلنا شروع کردوں۔ لیکن میں نے اس طرح کی کوئی حرکت نہیں کی۔ اتفاق سے ہی جمعرات کا دن تھا اور ہرجمعرات کو امیّ خیرات کرتی تھی۔ امیّ نے جلیبیاں منگوائی ہوئی تھی نمک پارے اور بوندیاں بھی۔ لہٰذا مجھے مٹھائی منگوانے کی ضرورت نہ پڑی۔ میں گھرآتے ہی امیّ سے گلے ملی۔ یوں لگ رہاتھا کہ صدیوں بعد جیسے کوئی مہمان آکرملتاہے۔ خیراس دن خوشی کا اظہارمیں مل کر کر رہی تھی سب نے مجھے شعر چھپنے کی مبارکباد دی۔ میں نے جواب میں خیرمبارک کہا اور سب کو گھرآئی ہوئی جلیبیاں کھلائیں۔ اور بہت خوش ہوئی۔ امیّ نے کہاکہ بیٹا اسی طرح یہ کائنات بھی’’اپنی اپنی دنیا‘‘ میں خوش ہے۔ خدا تمہیں بھی خوش رکھے۔ (آمین) *۔۔۔*۔۔۔*

No comments:

Post a Comment