نمرہ عباسی
|
ہماری گزشتہ گرمیوں کی چھٹیوں کا حال تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔کیا۔۔۔نہیں یاد ارے ۔۔۔وہی۔۔۔’’دھڑدھڑدھڑام‘‘۔۔۔یادآگیانا! لیکن اس دفعہ تو ہم نے نیا منصوبہ بنایا کہ ہم پچھلی والی ’’دھڑ دھڑدھڑامیں‘‘ ہرگزبھی نہیں دہرائیں گے۔بھئی ہم نے سوچاکہ اس دفعہ کیوں نہ ہم یہ کریں‘ وہ کریں‘ ارے ہاں! وہ تو بہت ہی اچھارہے گا اور یہ سوچتے سوچتے دور بہت دور کسی بادشاہ کے زمانے میں جاپہنچے۔ دربارمیں حاضری کے بعد بادشاہ نے ہمیں درباری بننے کی پیش کش کی۔ ہم جھٹ بادشاہ کے دائیں بائیں بنی قطاروں میں کھڑے دو وزیروں میں سے پہلے کو ’’ڈھش کرکے‘‘ دھکا دے کر کھڑے ہوگئے‘ آخر تجربہ بھی تو تھا ہمیں کراچی میں بل جمع کرانے کا۔ بادشاہ وقت بہت سٹپٹائے‘ لیکن ہمارے بارے میں کسی نے ان کو بتادیا تھا کہ صاحب نئی دنیاسے آئے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک ڈبیاہے جس کے اوپر چوکور چوکور خانے بنے ہوئے ہیں جس کے دباتے ہی قدرت کے کرشمے نظرآنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اپنے ’’موبائل فون‘‘ کا اس قدرلمبا تعارف سن کر پہلے تو ہماری شکلیں عجیب وغریب سی بنیں‘ لیکن پھر اپنے کرشماتی گولے سے کام لیا۔ ارے بھئی! دماغ بھی تو کرشماتی گولاہی ہے۔ بادشاہ سلامت (پتہ نہیں ہو یا نہیں ہو) کے دل ادب واحترام اوربڑھ گیا‘ کہنے لگے ’’لیکن ہمارے یہاں ایک اصول ہے کہ ہرنئے شخص سے ایک سوال کیاجاتاہے اور اگر سوال کا جواب دے دیاتو درباری پکیّ۔ سوال۔۔۔لفظ ’’سوال‘‘ سنتے ہی ہمیں وہ بھکاری یاد آگیا جس کے ایک روپیہ دینے کے سوال کا جواب ہم نے نفی میں دیا اورپھر۔۔۔ڈھش کرکے ایک زوردار تواضع ہوئی تھی ہماری۔ ’’ہاں تو جناب سوال یہ ہے کہ بتاؤ ہمارے محل کے باغ میں اس وقت کتنے درخت موجود ہیں۔‘‘بادشاہ گویاہوئے ۔ م م م م ۔۔۔آپ کے محل میں اتنے درخت ہیں‘ اتنے درخت ہیں۔۔۔ہم نے باغ میں نظردوڑاتے ہوئے کہا جب ہمیں تھوڑے ہی نظرآئے تو ہم نے کہا اتنے ۔۔۔کہ جتنے بال آپ کی مونچھوں کے ہیں۔ بادشاہ بولے‘ ’’اوربھلا ہماری مونچھوں میں کتنے بال ہیں ؟؟؟؟ ہم نے جھٹ عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈھش کرکے جیب سے بلیڈ نکالا اور پلک جھپکنے میں ہم بادشاہ سلامت کی مونچھوں کے بال گن رہے تھے۔۔۔ایک سودو۔۔۔ایک سو تین۔۔۔ ہم نے اوپر منہ اٹھاکر دیکھا تو بادشاہ کچھ ناگوار تاثرات چہرے پر لئے کھڑے تھے‘ ہم نے ان کو بغیر مونچھوں کے دیکھا تو بے اختیار آنکھیں بندکرکے قہقہہ لگایا۔۔۔لیکن ۔۔۔ ڈھش کرکے زوردار وارہوا اور پلک جھپکتے میں ہم اپنے دانتوں کے ٹکڑے گن رہے تھے۔۔۔ایک سو دو‘ ایک سو تین۔۔۔ ہمارے ’’شاہی کمرے‘‘ کا دروازہ ’’ڈھش کرکے ‘ بہت دیرسے بج رہاتھا‘ ہم نے کہا کون ہوگا‘ ہوگا کوئی نوکر ووکر‘ ہمیں جگانے آیاہوگا‘ جب دروازہ بہت دیرتک بجتا رہا تو اچانک خود ہی کھل گیا۔ ہم نے بغیرآنے والے کو تمیز سکھانے کی غرض سے تکیہ دے مارا لیکن یہ کیا۔۔۔تکیہ نیوٹن کے قانون کے مطابق برابر قوت لیکن الٹی سمت میں واپس آکرہم سے ٹکرا گیا۔ غصہ توہمیں بہت آیا لیکن جب اظہارکرنے کے لئے آنکھیں کھولیں تو پتہ چلا کہ ہم کہانی لکھتے لکھتے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ پتہ ہے کہ نیوٹن کا قانون بجالانے والا شخص کون تھا؟ کوئی نہیں‘ صرف ’’ہماری بہن‘‘۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
Wednesday, 12 December 2012
اب کیاکریں!!
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment