Wednesday, 12 December 2012

وہ پندرہ منٹ

وہ پندرہ منٹ
 
راشد علی نواب شاہی
’’ بھئی ! کیا دیہاڑی لو گے؟‘‘ ’’دو سو روپے۔‘‘ سیٹھ اکرم کے سوال پر فضل مزدور نے جواب دیا۔ ’’کام ساڑھے چار بجے تک کرنا ہوگا۔اور ہاں! کھانے کا وقفہ پون گھنٹے کا ہو۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے جناب!‘‘ فضل مزدور نے سعادت مندی سے جواب دیا۔ سیٹھ اکرم جو تعمیرات کا کام کرتے تھے ۔ بڑے کام ٹھیکے پر کرواتے تھے۔ جب کہ چھوٹے موٹے کام دیہاڑیوں پر کرواتے تھے۔ وہ مزدوروں سے بڑے بدظن تھے۔ ان کا تجربہ تھا کہ دیہاڑیوں پر کام کرنے والے مزدور سست روی سے کام کرتے ہیں اور کھانے کے وقفے میں پانچ دس منٹ تاخیر سے کام شروع کرتے ہیں جب کہ ٹھیکے پر دیئے ہوئے کام میں کاری گر اور مزدور جلد سے جلد کام نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج سیٹھ اکرم صاحب اپنے ذاتی گھر کا کام کروا رہے تھے ۔ اس لیے فضل مزدور کو پہلے سے ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ سیٹھ اکرم معاملے کے کھرے آدمی تھے۔ ایک عادت ان میں یہ بھی تھی کہ کاری گر اور مزدوروں کی اجرت ان کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ *۔۔۔* ساڑھے بارہ بجے تو مستری اور مزدور کھانے کے وقفے کے لیے جانے لگے ۔ فضل نے بھی جانے کی اجازت چاہی۔ ’’ہاں جاؤ! مگر ٹھیک ڈیڑھ بجے کام پر ہونا چاہیے۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے جناب!‘‘ فضل نے اثبات میں سر بھی ہلایا۔ فضل جب آیا تو ایک بج کر 45منٹ ہو رہے تھے۔ دوسرے مزدور کام کررہے تھے۔ فضل پورے پندرہ منٹ کی تاخیر کر چکا تھا۔ سیٹھ اکرم نے اسے غصیلی نظروں سے گھورا اور اس نے تہیہ کر لیا کہ پندرہ منٹ کی مزدوری کم دوں گا۔ *۔۔۔* شام کے چار بجے تو سارے مزدور اور کاری گر سیٹھ اکرم کے پاس جمع تھے اور سیٹھ اکرم ہر ایک کی دیہاڑی دے رہا تھا۔ سب لوگوں کی دیہاڑی دینے کے بعد اس کی نظر فضل پر پڑی جو ہودی میں پڑی گیلی اینٹیں دوسری منزل پر لے جا رہا تھا۔ ’’ بھئی ! اپنی دیہاڑی لے لو۔‘‘ ’’ پندرہ منٹ بعد لوں گا۔‘‘ ’’ پندرہ منٹ تاخیر کیوں؟‘‘ سیٹھ اکرم نے پوچھا۔ سیٹھ صاحب پہلے نماز ادا کی اور پھر مجھے تندور سے روٹی لینی تھی ، تندور والے کے پاس بہت رش تھا۔ جس کی وجہ سے پندرہ منٹ لیٹ ہو گیا۔ اب وہ پندرہ منٹ پورے کرکے ہی اپنی اجرت لوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر اینٹیں اٹھا کر دوسری منزل کی طرف لے جانے لگا۔ جب تک فضل مزدور نہیں آیا سیٹھ اکرم اس احساس میں گم تھے کہ اس کائنات کا حسن بناوٹ اور سج دھج انہی مزدوروں کی مرہونِ منت ہے۔ یہ بے چارے دیہاڑی کے دیہاڑی کام کرتے ہیں۔ آج کے فضل کے طرز عمل نے بتا دیا کہ ہر مزدور ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ایسے ایماندار لوگ اب بھی موجود ہیں۔ *۔۔۔*۔۔۔*

No comments:

Post a Comment