محمدشعیب ڈرگی
|
ایک بادشاہ نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا ۔جس سے وہ خاصا پریشان ہوا۔ اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ ملک بھرسے خوابوں کی تعبیربتانے والوں کوبلوایاجائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی آناً فاناً ملک کے مشہورومعروف تعبیرکرنے والے اکٹھے ہوگئے۔ یہ سب کے سب تعبیربتانے کے ماہرتھے۔ بادشاہ نے ان کے سامنے اپنا خواب بیان کیا’’میں صحیح سالم اپنے اقتدارپر براجمان ہوں‘ اچانک میرے دانت یکے بعد دیگرے گرنے شروع ہوگئے۔ حتیٰ کہ میرے منہ میں کوئی بھی دانت باقی نہیں رہا‘‘۔ جب معتبرین (خواب کی تعبیربتانے والوں) کے سامنے یہ خواب بیان ہوا۔ تو اکثر وبیشترنے بادشاہ کے خواب کی کوئی نہ کوئی تعبیر بیان کی۔ تاکہ بادشاہ کی پریشانی دورہوجائے۔تمام نے اس کو تسلّی دی۔ مگر ان کی تعبیر بادشاہ کے دل کو نہ لگی۔ انہی معتبرین میں سے دو آدمی ایک گوشے میں خاموش بیٹھے تھے۔ بادشاہ دیکھ رہاتھا کہ انہوں نے گفتگومیں حصہ نہیں لیا۔ بادشاہ نے ان کو مخاطب کرکے کہا:تمام نے تعبیربیان کی ہے۔ تم کیوں نہیں بولے؟ تم بھی خواب کی تعبیربیان کرو۔ ان میں سے پہلا کہنے لگا جناب! مجھے اس خواب کی تعبیربیان کرتے ہوئے نہایت افسوس ہو رہا ہے ‘ مگر کیاکیاجائے۔ حق تو بیان کرناہی ہوتاہے۔ بادشاہ نے کہا: ہاں ہاں !کیا تعبیرہے؟ جناب بادشاہ سلامت! آپ کی تمام اولاد آپ کی آنکھوں کے سامنے یکے بعددیگرے وفات پاجائے گی۔ یقیناًآپ کو اس سے نہایت غم اور رنج ہوگا۔ جس سے آپ بھی وفات پاجائیں گے۔ جب بادشاہ نے یہ تعبیرسنی تو اس کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اس کو نہایت صدمہ ہوا۔ اس کی آنکھیں غصے سے لال پیلی ہونے لگیں۔ سخت پریشانی کے عالم میں وہ حواس باختہ ہوکر چیخا: اس معّبرکو میری آنکھوں کے سامنے سے لے جاؤ اور اس کو جیل میں ڈال دو۔ تھوڑی دیرکے بعد اسے قدرے سکون ہوا۔ اس نے دوسرے معبّرکی طرف دیکھا اورکہنے لگا۔ تم بتاؤ تمہارے نزدیک میرے خواب کی کیا تعبیر ہے؟ ’’جناب بادشاہ سلامت! آپ نہایت لمبی عمر پائیں گے ۔ اپنے خاندان کے تمام افراد سے لمبی عمر۔۔۔اور آپ کے خاندان کا ہرفرد یہ خواہش اورتمنا رکھتاہے کہ آپ ان سب سے لمبی عمرپائیں‘‘۔ (اس تعبیرکا مفہوم وہی ہے جو پہلے معبّرنے بتائی ہے) یعنی خاندان کے سارے افراد سے زیادہ عمر بادشاہ کو نصیب ہوگی اوربقیہ سارے لوگ اس کی آنکھوں کے سامنے مرجائیں گے۔ بادشاہ نے سنا تو اس کی تمام ترپریشانیاں دورہوگئیں۔ چنانچہ اس نے وزیرکوحکم دیا کہ اس کو شاہی جوڑے اور انعام واکرام سے نوازاجائے۔ اگرہم تھوڑی دیرکے لئے غورکریں تو دونوں معبّرین کے کلام میں کوئی فرق نہیں۔ مگرآدمی کی ذہانت اور دانائی اس کو بہت سارے مسائل سے نجات دلاتی ہے۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
Wednesday, 12 December 2012
بات کرنے کاانداز
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment