حماد ظہیر
|
میرے ذہن میں شاندار قسم کی ترکیبیں آرہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے نت نئے اور اچھوتے خیالات ریل گاڑی میں بیٹھ کر میرے سر میں آرہے ہوں کہ ایک ڈبہ ٹھیک سے دیکھ بھی نہ پاتا کہ اگلا آجاتا اور پھر اس کا اگلا! میرے سامنے کتاب تھی اور ہاتھ میں قلم۔۔۔ ایک خالی رجسٹر بھی منہ کھولے بیٹھا تھا۔ اس کے اوپر رکھا کیلکولیٹر گویا اس کی زبان کی کمی پوری کر رہا تھا۔ میں کرسی پر براجمان گہری سوچوں میں غرق تھا۔ اس وقت ذہن کی پرواز کا یہ عالم تھا کہ اگر جہاز ایجاد نہ ہو چکا ہوتا تو میں جہاز ایجاد کر لیتا، ایٹم بم نہ بنا ہوتا تو بنا ڈالتا۔ کمپیوٹر کی تخلیق نہ ہوئی ہوتی تو وہ بھی کر ڈالتا اور اگر ڈی این اے کا کوڈ دریافت نہ ہوا ہوتا تو وہ بھی آج میرے ہاتھوں دریافت ہو ہی جاتا۔ میری آنکھوں میں اس وقت وہ رنگ تھے کہ انہیں صفحات کے قرطاس پر منتقل کرتا تو صادقین اور لیونارڈو شرما جاتے، سماعتوں میں وہ ساز تھے کہ جو تان سین کو خاموش کرا دیتے۔ زبان پہ وہ شعر تھے جو غالبؔ و میرؔ کو سکتہ میں مبتلا کر دیتے اور ایسے بہت سے خیالات میرے ذہن میں ٹھاٹیں مار رہے تھے جو دنیا کا نقشہ تبدیل کر سکتے تھے، لیکن بس ایک چھوٹا سا مسئلہ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ میرے پاس ان تمام چیزوں کو عملی جامہ پہنانے کا وقت نہیں تھا، کیوں کہ کل سے میرے امتحانات شروع ہو رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح میں نے سارا سال پڑھائی نہ کی تھی اور اب ہی اس نیک کام کاموقع ملا تھا۔ اب بھی اگر پڑھائی نہ کرتا تو یقیناًفیل ہوتا۔ مجھے حیرت تھی اس بات کی کہ سارا سال مجھے یہ نادر اور اچھوتے خیالات کیوں نہ آگئے ورنہ میں کتنوں ہی پر عمل درآمد کرکے ایک عظیم شخصیت بن چکا ہوتا۔ میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ امتحانات ختم ہوتے ہی ایک ایک کرکے سارے کام ہی کر گزروں گا۔ ڈرائنگ ، پینٹنگ، کیلی گرافی، کہانی نویسی، شاعری اور نت نئی ایجادات کی تفصیل۔ ہاں بھئی ۔۔۔ نئی ایجادات کو پہلے سوچا ہی تو جاتا ہے، زمان و مکاں سے بے نیاز ہو کر ۔ جیسے ہوائی جہاز اور ٹیلی ویژن کے بارے میں سوچا گیا جیسے ٹینک اور میزائل کے بار ے میں سوچا گیا، پھر کسی جیالے نے ان کو حقیقت بھی بنا ڈالا۔ دل پر بڑے بڑے پتھر رکھ کر میں نے ان تمام خیالات کو پس پشت ڈالا اور مجبوراً کتاب اٹھا کر پڑھنی شروع کی۔ صبح امتحان تھا ، تقریباً بارہ مضامین پڑھنے تھے۔ میں نے جو تیز تیز پڑھنے شروع کیے تو آدھے آھے گھنٹہ ہی میں ایک ایک سبق نمٹا دیا۔ واہ بھئی! کہاں تو سر نے انہیں سارا سال پڑھایا اور کلاس میں کتنی مغز ماری کی۔ جبکہ یہ تو بیس پچیس منٹ کی مار نکلے۔ حارث کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بحث کیا کرتا تھا، یہ تو انتہائی آسان تھیں، کاش کہ میں نے پہلے یہ سبق پڑھ لیا ہوتا تو راج کرتا کلاس میں۔ میں نے افسوس کے ساتھ سوچا۔ پھر میں نے ایک عزم اور کیا۔ اگلے سال سارے سبق پہلے سے پڑھ کر جایا کروں گا۔ جب ایک رات میں بیٹھ کر بارہ اسباق پڑھ سکتا ہوں تو بھلا ایک پڑھنے میں کیا دقت ہوگی۔ بھرم پڑ جائیں گے کلاس پر۔ پھر آٹھ اسباق ہی پڑھے ہوں گے کہ خیال آیا کہ کچھ منہ کا ذائقہ تبدیل کیا جائے۔ الماری میں رکھی کتابوں کے نام میری آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے۔ وہی کتابیں جو سارا سال الماری میں پڑی سڑتی رہتی تھیں اس وقت مجھے انتہائی دلچسپ معلوم ہونے لگیں۔ منشی پریم چند ہوں یا قرۃ العین حیدر، سب مجھے بھلے لگنے لگے۔ ابھی تو تھوڑی سی چکھ لیتا ہوں، امتحانات کے بعد پوری پوری پڑھوں گا۔ کمال ہے، اتنے بڑے نامو ر ادیب گھر میں پڑے ہیں اور پڑھے نہیں گئے۔ میں نے دل ہی دل میں ایک اور فیصلہ کیا۔ کتاب اٹھائی تو رکھنے کا جی ہی نہ چاہا۔ کاش یہ پرچہ ایک دن بعد ہوتا۔ صرف ایک دن بعد تو نہ صرف یہ کتاب پوری ختم کرتا بلکہ کورس کی کتاب بھی ایک مرتبہ اور دہرا لی جاتی۔ جس دل سے میں نے ادبی کتاب کو رکھ کر نصابی کتاب اٹھائی میں ہی جانتا تھا۔ پھر نیند نے اپنا قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ واہ۔۔۔ کیا نعمت ہے یہ نیند بھی۔ دنیا کے سارے لوگ کس مزے سے پڑے سو رہے ہیں۔ وہ بھلا کیا جانیں میں کس قدر ذہنی کوفت کا شکار ہوں۔ جاگ جاگ کر علم حاصل کررہاہوں۔ بہرحال، میں نے بھی تو باقی ساری راتیں سو کر ہی گزاری ہیں۔۔۔!! اس وقت تو کبھی یہ نہ سوچا کہ کون کون پڑھائی کرنے میں راتیں جاگ رہا ہے۔نیند بھی کیا چیز بنائی ہے خدا نے، واہ واہ۔۔۔ *۔۔۔* آنکھ کھلی تو وین آنے میں چار منٹ باقی تھے۔ وین نکل جاتی تو بس سے جانے میں پیپر نکل جاتا۔ جو نظر آیا پہنا، جو ہاتھ آیا بستہ میں ٹھونسا اور باہر بھاگا۔ چار باب چھوڑ دینے کے باوجود پیپر بہت برا نہیں ہوا۔ لیکن اتنا برا ضرور تھا کہ اگلے پرچوں کیلئے کمر کس لی اور خوب ڈٹ کر تیاری کی۔ خدا خدا کرکے امتحانات ختم ہوئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فوراً اپنے انوکھے خیالات کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے لیکن سوچا ایک دو روز تو تھکن اتاریں کہ دن رات ایک کرکے پڑھا تھا۔ کئی راتیں جاگے بھی تھے۔ پھر ایک ہی دو روز میں بے شمار کاموں نے گھیر لیاکہ جیسے شہر کے چھتے کو چھیڑ دیا ہو اور ساری کی ساری مکھیاں ہٹائے نہ ہٹ رہی ہوں۔ امی نے کہا کہ دو ہفتہ امتحانات کی وجہ سے کوئی کام تم سے نہیں کرایا لہٰذا اب یہ یہ کام تم ہی انجام دو۔ کمپیوٹر لاک تھا کھل گیا۔ کرکٹ کی کٹ لو کر سے نکل آئی۔ دوستوں کے فون پر پابندی اٹھ گئی وغیرہ وغیرہ ۔ غرض جو سکون اور مہلت امتحانوں میں حاصل ہوتی تھی وہ نہ رہی۔ اب ایسی صورتحال میں کہاں سے آتیں تخلیقی صلاحیتیں اور کیسے ملتا انہیں پروان چڑھانے کا وقت مجھے یاد ہی نہ رہا کہ امتحانوں کے دوران کیا کیا منصوبے بنائے تھے، اور کیا کیا سوچا تھا۔ تمام خواب ادھورے پڑے رہے مرے بڑے دنوں بعد ایک روز اچانک یاد آیا اور میں سارے کام کاج چھوڑ کر کم از کم ایک آئیڈیے پر تو فوراً ہی کام کرنے بیٹھ گیا۔ تین چار گھنٹے کی محنت کے بعد میں ایک شہ پارہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ پینٹنگ میں نے انتہائی جانفشانی اور باریک بینی سے بنائی تھی۔ گو کہ وقت بہت خرچ ہوا تھا لیکن سینری ایسی بنی تھی کہ اس میں کھو جانے کا جی چاہتا تھا۔ مزید آدھا گھنٹہ تو میں نے اسے دیکھنے میں ضائع کیا اور شاید یہ مزید طویل ہوجاتا اگر سارہ نہ آجاتی۔ ’’بھائی صاحب۔۔۔ میرے واٹر کلرز آپ لے کر آئے ہیں اور ہائیں۔۔۔ کل صبح آپ کا فائنل پیپر ہے اور آپ موصوف بیٹھے ڈرائنگ بنا رہے ہیں، چلیے پڑھائی کیجئے۔‘‘ اور میں سوچنے لگا کہ اگلے سال تو ضرور ہی روزِ اوّل سے پڑھائی کروں گا ، تاکہ آخری رات جاگ کر نیند نہ خراب کرنی پڑے۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
Wednesday, 12 December 2012
آخری رات
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment