ثناء العزیز
|
’’ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟‘‘ علی بے چارگی سے بولا۔ ’’ٹانگیں اوپر کرو سر نیچے کرو۔ کچھ نہ کچھ ذہن میں آہی جائے گا۔۔۔‘‘ احمد نے مشورہ دیا۔ ’’تم اپنے آزمودہ نسخے اپنے پاس رکھو۔۔۔‘‘ علی نے اسے گھورا۔ ’’ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔‘‘علی نے سر پکڑ لیا۔ ’’ ابو امی کی باقاعدہ میٹنگ ہوئی ہے۔ انہوں نے چور پکڑنے کا بھرپور عزم کیا ہے!!‘‘ ’’کیسا چور۔۔۔؟؟‘‘ احمد نے پوچھا۔ ’’ بھئی فریج کا چور۔۔۔ کھانے کا چور۔۔۔‘‘ ’’ ہیں۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ کھانے کا چور۔۔۔‘‘ احمد نے آنکھیں پھیلائیں۔ ’’ ہاں بھئی ۔۔۔ میں بہت پریشان ہوں۔۔۔ یہ سب کیا ہور ہا ہے؟‘‘ ’’ یعنی تم چور پکڑنے کے لیے سنجیدہ ہو۔‘‘ احمد نے سوال کیا۔ ’’تو اور کیا۔۔۔ اگر وہ مجھے مل گیا تو مار مار کر اس کا کچومر نکال دوں گا۔۔۔‘‘ ’’ ارے ۔۔۔ رے ۔۔۔کیوں بھئی ۔۔۔ اتنا غصہ۔۔۔ صرف کھانے کا چور ہے نا۔۔۔ کوئی قیمتی چیز تو نہیں چرائی۔۔۔‘‘ احمد بولا۔ ’’ نہیں۔‘‘ علی بولا۔ ’’ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ہم چور کا سراغ لگائیں گے۔۔۔ اب تم تفصیل بتاؤ۔۔۔‘‘ ’’ہم گھر میں کل پانچ افراد ہیں۔ امی ابو، عائشہ ، سرمد اور میں۔ کئی دن سے رات کے وقت جو چیزیں ہم نے فریج میں رکھیں وہ پراسرار طور پر غائب ہو رہی ہیں۔ ملازمہ صرف دن میں آتی ہے۔ باہر سے کسی چور کے آنے کا امکان کم ہی ہے۔۔۔ پرسوں فریج میں رکھا گیا کیک غائب ہو گیا۔۔۔ کل آئسکریم ۔۔۔ اس سے پہلے بھی فریج اور کچن سے کئی کھانے کی چیزیں غائب ہوئی ہیں۔ اب امی ابو نے باقاعدہ میٹنگ کے ذریعے یہ بات طے کی ہے کہ چور کو پکڑا جائے۔۔۔‘‘ علی کے چہرے پر پریشانی نمودار ہو گئی۔ ’’دراصل ان کا خیال ہے کہ آج بات یہیں تک ہے کل کو چور مزید کچھ کر سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ چور ہم تینوں میں سے کوئی ہے۔۔۔ یعنی عائشہ سرمد اور میں۔‘‘ ’’بات تو ان کی سو فیصد درست ہے۔‘‘ احمد نے اس پر نظریں جمائیں۔ ’’ کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ علی بگڑ کر بولا۔ ’’ یہی کہ۔۔۔ چور تم ہو۔۔۔!!!‘‘ ’’ کیونکہ وقت بے وقت بھوک لگنے کا تمہیں عارضہ ہے۔۔۔ اور اکثر تم دوسروں کی چیزوں پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہو۔۔۔‘‘ احمد اطمینان سے بولا۔ ’’تم میرے دوست نہیں دشمن ہو۔۔۔ میں تم سے مسئلے کا حل پوچھ رہا ہوں۔ الٹا تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو۔۔۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں یہ سب میں نے نہیں کھایا ہے ۔علی غصے سے بولا۔ ’’ بلکہ پرسوں خودبخود میرے کمرے سے کیک غائب ہو گیا۔ ڈبے سمیت۔۔۔ ڈبہ تو بعد میں مل گیا مگر کیک موجود نہیں تھا اور کل آئسکریم کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا‘‘ ’’ کیا کہا۔۔۔ میں نے صحیح کہا تھا نا۔۔۔ چور تم ہی ہو یہ چیزیں فریج سے تمہارے کمرے میں کیا پیدل چل کر آئی تھیں۔۔۔‘‘ احمد اچھل پڑا۔ ’’ہاں تو میں بھی تو اسی لیے پریشان ہوں کہ چور کون ہے؟ جو میری چیزوں پر اتنی ڈھٹائی سے ہاتھ صاف کر رہا ہے۔‘‘ علی بولا۔ ’’واہ یعنی یک نہ چور دو چور۔۔۔ سیر پر سوا سیر۔۔۔الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ احمد مسکرایا۔ ’’ تم اپنی محاورے بازی بند کرو۔‘‘ علی نے جل کر کہا۔ ’’ چلو آج میں کمبائن اسٹڈی کے بہانے تمہارے کمرے میں رات گزارتا ہوں۔ ہم مل کر چور پکڑیں گے۔۔۔ ٹھیک ہے نا۔۔۔!!‘‘ احمد بولا۔ ’’ آج فریج میں کسٹرڈ اور کھیر موجود ہے۔۔۔‘‘ علی نے احمد کو اطلاع دی۔ ’’رات کے دو بج رہے ہیں اور میرا بھوک سے برا حال ہے۔‘‘ ’’اوکے تم کسٹرڈ لے آؤ۔۔۔ آج تمہارے چور سے ہم نمٹ ہی لیں گے۔‘‘ احمد نے کہا۔ ’’ میں چور کی خاطر تواضع کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں۔۔۔ یہ دیکھو کرکٹ کا بلا۔۔۔ جوتے ۔۔۔جھاڑو ۔۔۔ سب موجود ہے۔‘‘ احمد نے کہا۔ ’’ یہ رہا تار جس کے ذریعے میں فریج کا لاک کھولتا ہوں۔‘‘ علی نے تار نکال کر دکھایا۔ آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھولا۔ اطمینان کیا کہ سب اپنے کمروں میں محو خواب خرگوش ہیں۔ کچن میں جا کر فریج میں سے کسٹرڈ کا پیالہ نکالا اور آہستگی سے کمرے میں آگیا۔ ’’ یہ یہاں ٹیبل پر رکھ دو۔۔۔ نائٹ بلب کے سوا تمام لائٹس آف کر دو آج چور پکڑا جائے گا۔‘‘ احمد نے کہا۔ ’’ مم۔۔۔ مگر۔۔۔ میں کیا کروں۔۔۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔۔۔‘‘ ’’ چلو تم تھوڑا سا کھا لو۔‘‘ احمد نے گویا احسان کیا۔ ایک گھنٹہ گزر گیا۔ دونوں نظریں ٹیبل پر جمائے ہوئے تھے۔ مگر کسٹرڈ کا پیالہ جوں کا توں رکھا تھا۔ ان دونوں کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہونے لگیں۔ علی نے آنکھیں کھول کر اچھے طریقے سے اطمینان کیا کہ احمد سوچکا ہے۔ پھر دبے پاؤں اٹھا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ ’’ ہیں ۔۔۔ یہ کہاں گیا ہے۔۔۔؟؟‘‘ احمد نے حیرانگی سے اسے جاتے دیکھا۔ وہ سو نہیں رہا تھا صرف آنکھیں بند کر رکھی تھیں ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کھٹکے کی آواز آئی۔ سامنے کھڑی پر موجود پردہ ہل رہا تھا۔ احمد کا سانس سینے میں اٹک گیا۔۔۔ اس نے بیڈ پر ساتھ رکھے بلے پر مضبوطی سے ہاتھ جما دیئے۔۔۔ وہ ساکت لیٹا ہوا تھا اور آنکھیں پردے پر جمی ہوئی تھیں۔ ’’کون ہے وہاں؟؟‘‘اس کی آنکھوں میں خوف جھلک رہا تھا۔ علی گو کہ کسٹرڈ کا آدھا پیالہ کھا چکا تھا۔ لیکن تصور میں میووں سے سجی کھیر کا پیالہ ابھر رہا تھا۔ ’’واہ۔۔۔ مزیدار۔۔۔‘‘ اس نے تصور ہی تصور میں زبان ہونٹوں پر پھیری اور فریج کا دروازہ کھول کر کھیر کا پیالہ لے کر جیسے ہی مڑا۔ ایک افتاد ٹوٹ پڑی۔وہ سر پکڑ کر نیچے بیٹھ گیا۔۔۔ ’’ پکڑاگیا۔۔۔ چورپکڑا گیا۔۔۔‘‘ یہ ابو کی بلند آواز تھی پھر اس میں سب کی آوازیں شامل ہو گئیں۔۔۔ تمام لائٹس آن ہو گئیں۔ علی شرمندگی سے زمین پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔ ’’ چور پکڑا گیا۔۔۔‘‘ احمد نے نعرہ لگایا ۔۔۔ اور دوڑتا ہوا کمرے سے نکلا۔ ’’ پپ پورے چار چور تھے۔۔۔ اوہ خدایا۔ ‘‘وہ بولا۔ ’’ ہیں۔۔۔ چار چور۔۔۔ کک کہاں ہیں؟‘‘ ابو حیران و پریشان تھے۔ ’’ تین بھاگ گئے بس ایک پکڑا گیا۔۔۔!!‘‘ ’’ ہائے ۔۔۔ اوئی اﷲ ۔۔۔ چور۔۔۔‘‘ امی چلائیں۔ ’’ میرے بچے کو کیا ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے سر پکڑے علی کو دیکھا جس کے ماتھے پر ایک گومڑا بھرا ہوا تھا۔ ’’ میرے بچے تجھے کیا ضرورت تھی چوروں سے لڑنے کی۔۔۔ اگر تجھے کچھ ہوجاتا۔۔۔ میں عائشہ کے ابو سے پہلے ہی کہہ رہی تھی چور باہر سے آتے ہیں گھر کے نہیں ہیں۔۔۔‘‘ وہ نہ جانے کیا سمجھ کر علی کو چمٹا رہی تھیں۔ ’’ ارے بیگم۔۔۔ فریج کا چور یہی ہے۔۔۔‘‘ انہوں نے علی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ ہیں ۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ ‘‘ انہوں نے علی کو گھورا۔ ’’تو وہ کمرے میں کون تھے۔۔۔جو احمد بتا رہا تھا۔‘‘ امی نے پوچھا۔ احمد وہاں سے غائب تھا۔ پھر احمد کمرے سے آتا دکھائی دیا۔ ’’ یہ رہا کھانے کا چور۔۔۔ اس کے تین عدد ساتھی بھاگ گئے۔۔۔ یہ میری زد میں آگیا۔۔۔‘‘ احمد نے ایک مرے ہوئے چوہے کو دم سے پکڑ رکھا تھا۔ علی حیرت سے چوہے کو دیکھ رہا تھا اور ابو حیرت سے علی کی طرف۔۔۔ ’’یہ کیا کہانی ہے؟‘‘احمد نے انہیں ساری بات بتائی۔ ’’ علی کے چور کو تو اپنی سزا مل گئی ۔۔۔ اب ہمارے چور کی سزا یہ ہے کہ اس کا جیب خرچ بند۔۔۔‘‘ ابو نے کہا۔ اور انکل ایک عد دڈاکٹر کی بھی ضرورت ہے۔۔۔ تاکہ اس کی بے وقت بھوک کا علاج بھی کیا جا سکے۔۔۔!!‘‘ احمد بولا ’’ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ ’’ ابو ڈاکٹر کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ پلا دیتے ہیں۔۔۔ فوراً ٹھیک ہوجائیں گے۔۔۔‘‘ سرمد نے کچن میں رکھی کیڑے مار دوا کی طرف اشارہ کیا۔ سب کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ *۔۔۔*
|
Wednesday, 12 December 2012
چور پکڑا گیا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment