Wednesday, 12 December 2012

خوشی

خوشی
 
ابرار محسن(بھارت)
بہت دن ہوئے۔۔۔ فلسطین کے کسی گاؤں میں ایک درزی رہتا تھا۔ اس کا نام خالد تھا۔ خالد بہت غریب تھا۔ رہنے کیلئے اس کے پاس صرف ایک جھونپڑی تھی۔ ٹوٹی پھوٹی اور پرانی۔ اسی جھونپڑی میں وہ اپنی بیوی اور لڑکیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ خالد بہت غمگین رہتا تھا۔ وہ سارا سارا دن کپڑے سینے میں لگا رہتا۔ بیٹھے بیٹھے کمر دکھنے لگتی اور سوئی پکڑے رہنے سے انگلیاں دکھنے لگتیں۔ اتنی محنت کرنے کے باوجود اس کی آمدنی بہت ہی کم تھی، اتنی کہ دو وقت پیٹ بھر کرکھانا تک نصیب نہیں ہوتا تھا۔ غربت کی اس زندگی نے اسے بہت ہی چڑچڑا بنا دیا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر جھلا جانا اس کی عادت بن چکا تھا۔ یہاں تک کہ اپنی لڑکیوں کا شور بھی اسے سخت ناگوار ہونے لگا۔ وہ انہیں ہر وقت ڈانٹتا اور برا بھلا کہتا رہتا۔ ’’ کیسی مصیبت ہے میری! ایک تو زندگی ویسے ہی بوجھ ہے، اس پر ان لڑکیوں کا شور۔ کسی لمحہ سکون نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا میں کہاں چلا جاؤں، کیا کروں؟ میں بڑا بدنصیب ہوں، نہ دن کو آرام ملتا ہے، نہ رات کو چین۔ نہ جانے میرے دکھ کب ختم ہوں گے؟‘‘ معصوم لڑکیاں باپ کا یہ غصہ دیکھتیں اور سہم جاتیں۔ وہ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ جاتیں اور سسکیاں بھرتی رہتیں۔ بیوی سمجھاتی۔ ’’ اتنا غصہ نہیں کرتے۔ خوشی اور غم سب کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ کون ہے جسے کوئی غم نہ ہو؟ انسان اسی وقت غمگین ہوتا ہے جب وہ اپنے غم کو سب سے بڑا غم سمجھ لیتا ہے۔ انسان بڑا نادان ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ سکھ کو ہی دکھ سمجھ لیتا ہے۔ اکثر غم میں ہی خوشی چھپی ہوتی ہے۔ اس لیے خوش رہنے کی عادت ڈالو۔ آخر یہ بچیاں کہاں جائیں؟ یہی جھونپڑی ہی تو ان کی دنیا ہے۔ اور جہاں بچے ہوتے ہیں وہاں شور ہونا تو ضروری بات ہے۔‘‘ مگر خالد کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ وہ اسی طرح اپنی غریبی اور لڑکیوں کے شور و غل کا رونا روتا رہا۔ آخر ایک دن وہ شور و غل سے اتنا پریشان ہوا کہ گاؤں کے ربی کے پاس جا کر دُکھڑا رونے لگا۔ ’’عالی جناب! میں دُکھوں میں گھرا ہوا ہوں۔ غربت سے چھٹکارا نہیں ملتا حالانکہ دن رات محنت کرتا ہوں۔ مگر میری سب سے بڑی پریشانی ہے لڑکیوں کا شور۔ اس شور وغل نے مجھے پاگل بنا دیا ہے۔ کوئی ترکیب ایسی بتائیے کہ مجھے سکون مل جائے۔‘‘ ربی دیر تک آنکھیں بند کیے سوچتا رہا پھر کہا۔ ’’ ایک بلی پال لو۔‘‘ خالد نے تعجب سے کہا: ’’ مگر بلی سے تو شور اور بھی بڑھ جائے گا۔‘‘ ’’جیسا میں نے کہا ویسا ہی کرو۔‘‘ ربی نے مختصر جواب دیا۔ خالد بڑی الجھن میں پڑ گیا۔ مگر ربی سے کیا کہتا؟ کیا ربی گاؤں کا سب سے عقل مند آدمی نہیں تھا۔۔۔ اس نے بلی پال لی۔ اور ہوا وہی جو اس نے سوچا تھا۔ بلی کے آنے سے شور اور زیادہ بڑھ گیا تھا۔ دن رات وہ جھونپڑی میں میاؤں میاؤں کرتی پھرتی۔ اس نے ربی سے جا کر کہا۔ ’’بلی نے تو شور اور بڑھا دیا ہے۔‘‘ ’’یہ بات ہے۔‘‘ ربی نے سر ہلا کر کہا۔ ’’ تو پھر اب ایک کتا بھی پال لو۔‘‘ ’’ کتا پال لوں۔‘‘ خالد گھبرا کر بولا۔ ’’گھبراؤ نہیں بلکہ جو میں کہہ رہا ہوں وہی کرو۔‘‘ ربی نے سمجھایا۔ اس غریب نے مجبوراً کتا بھی پال لیا۔ دن رات بلی اور کتے میں لڑائی ہونے لگی۔ بلی میاؤں میاؤں کرتی اور کتا بھونکتا رہتا۔ وہ پھر ربی کے پاس پہنچا۔ ’’ کتے کے آنے سے تو حالت اور بھی خراب ہو گئی ہے۔ شور اوربڑھ گیا ہے۔ میں کیا کروں؟‘‘ ربی یہ سن کر مسکرایا اور اطمینان سے کہا۔ ’’اچھا تو اب ایک مرغا پال لو۔‘‘ ’’مرغا۔۔۔!‘‘ خالد نے آنکھیں پھیلا کر دُہرایا۔ ’’ہاں مرغا۔‘‘ ربی نے کہا’’ جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔‘‘ اس نے مرغا بھی پال لیا۔ اب تو خالد کے ہوش ہی گم ہو گئے۔ کتا اور بلی اور مرغا سب مل کر وہ اودھم مچاتے کہ اس کی زندگی عذاب بن گئی۔ رات کے پچھلے پہر جب اس پر گہری نیند کا حملہ ہوتا تو مرغا بانگ پر بانگ دینے لگتا۔ وہ بہت پریشان ہو گیا۔ ’’ اب کیا کروں، ربی۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’ اب تو جینا مشکل ہو گیا ہے۔‘‘ ربی بڑے سکون کے ساتھ بولا۔’’ اور اب ایک گدھا بھی پال لو۔‘‘ خالد اب کچھ ناراض سا ہو گیا۔ ’’گدھا پال لوں؟‘‘ ’’ہاں۔‘‘ ربی نے بھاری آواز میں کہا۔ ’’ میرا کہنا مانو۔‘‘ اس نے ایک گدھا بھی پال لیا۔ اب تو بس قیامت سی آگئی۔ بلی چوہوں کے پیچھے بھاگتی، کتا بلی پر بھونکتا ، مرغا بانگیں دیتا اور گدھا دو لتیاں چلاتا اور برتن پھوڑتا اور چلا چلا کر دن بھر سکون برباد کرتا رہتا۔ ’’ میں پاگل ہوجاؤں گا، ربی۔‘‘ اس نے رو کر ربی سے کہا۔ ’’ اس سے تو میں پہلے ہی اچھا تھا۔ اُف، یہ شور! میں کیا کروں؟ان جانوروں نے جینا مشکل کر دیا ہے۔ گدھا تو سب سے بڑی مصیبت ہے۔‘‘ ربی نے غور سے اس کی بات سنی۔ ’’اچھا! ‘‘ ربی نے دھیرے سے کہا۔’’ تو گدھے کو نکال دو۔‘‘ خالد نے فوراً گدھے کو جھونپڑی میں سے نکال دیا۔ اگلے دن وہ ربی سے ملا۔ ’’ اب کیسے ہو؟‘‘ ربی نے پوچھا۔ ’’بہتر۔‘‘ خالد نے اطمینان سے کہا۔ ’’ شور تو اب بھی ہے مگر گدھے کے جانے سے عجیب سا سکون ملا ہے۔‘‘ ربی مسکرایا’’ اب مرغے کو بھی نکال دو۔‘‘ ربی نے کہا۔ اس نے مرغے کو بھی نکال دیا۔ ’’ اب کیا حال ہے؟‘‘ ربی نے اگلے دن اس سے پوچھا۔ ’’بہت اچھا۔‘‘ خالد خوش ہو کر بولا۔ ’’ اب کم از کم رات کے آخری پہر بانگیں دے کر نیند خراب کرنے والا کوئی نہیں۔ مرغے کے جانے سے بڑی خاموشی ہو گئی ہے۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے۔‘‘ ربی نے یہ سن کر کہا۔ ’’ اب کتے کو بھی نکال دو۔‘‘ ’’ جو حکم ۔‘‘ خالد نے جواب دیا۔ دو دن بعد وہ ربی سے ملا۔ ’’ اور اب کیا حال ہے؟‘‘ ربی کا سوال تھا۔ ’’اب تو جھونپڑی میں سناٹا سا ہو گیا ہے۔ سکون ہی سکون ہے۔‘‘ خالد نے خوشی سے جھومتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ اب بلی کو بھی نکال دو۔‘‘ ربی نے کہا۔ اس نے بلی کو بھی نکال دیا۔ دو دن بعد خالد ربی سے ملا۔ ’’ اب کیسے ہو؟‘‘ ربی نے سوال کیا۔ خالد نے جواب دیا۔ ’’ربی! جھونپڑی میں اس قدر خاموشی ہو گئی ہے کہ اب تو دل گھبراتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میری بیٹیاں ہیں جن کی میٹھی آواز سے دل بہل جاتا ہے ورنہ اس خاموشی سے میں پاگل ہو جاتا۔ بیٹیوں کا وجود جھونپڑی میں چراغ کی طرح ہے ان کے بغیر جھونپڑی بے نور ہوتی ۔ ایسا سناٹا بھی کس کام کا! بہرحال میں بہت خوش ہوں۔‘‘ ’’ کیا بیٹیوں کے شور سے اب تمہیں تکلیف نہیں ہوتی؟‘‘ ربی نے پوچھا۔ ’’ان کی آوازیں میرے لیے خوشی کا پیغام ہیں۔‘‘ خالد نے جواب دیا۔ ’’ مجھے خوشی مل گئی ہے، ربی۔‘‘ ربی نے کہا۔ ’’خوشی تمہارے پاس ہی تھی، صرف تمہیں اس کا احساس نہیں تھا۔‘‘ اور خالد نے سر جھکا دیا۔ *۔۔۔*۔۔۔*

No comments:

Post a Comment