Thursday, 20 December 2012
Wednesday, 12 December 2012
خوشی
خوشی
|
ابرار محسن(بھارت)
|
بہت دن ہوئے۔۔۔ فلسطین کے کسی گاؤں میں ایک درزی رہتا تھا۔ اس کا نام خالد تھا۔ خالد بہت غریب تھا۔ رہنے کیلئے اس کے پاس صرف ایک جھونپڑی تھی۔ ٹوٹی پھوٹی اور پرانی۔ اسی جھونپڑی میں وہ اپنی بیوی اور لڑکیوں کے ساتھ رہتا تھا۔ خالد بہت غمگین رہتا تھا۔ وہ سارا سارا دن کپڑے سینے میں لگا رہتا۔ بیٹھے بیٹھے کمر دکھنے لگتی اور سوئی پکڑے رہنے سے انگلیاں دکھنے لگتیں۔ اتنی محنت کرنے کے باوجود اس کی آمدنی بہت ہی کم تھی، اتنی کہ دو وقت پیٹ بھر کرکھانا تک نصیب نہیں ہوتا تھا۔ غربت کی اس زندگی نے اسے بہت ہی چڑچڑا بنا دیا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر جھلا جانا اس کی عادت بن چکا تھا۔ یہاں تک کہ اپنی لڑکیوں کا شور بھی اسے سخت ناگوار ہونے لگا۔ وہ انہیں ہر وقت ڈانٹتا اور برا بھلا کہتا رہتا۔ ’’ کیسی مصیبت ہے میری! ایک تو زندگی ویسے ہی بوجھ ہے، اس پر ان لڑکیوں کا شور۔ کسی لمحہ سکون نہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا میں کہاں چلا جاؤں، کیا کروں؟ میں بڑا بدنصیب ہوں، نہ دن کو آرام ملتا ہے، نہ رات کو چین۔ نہ جانے میرے دکھ کب ختم ہوں گے؟‘‘ معصوم لڑکیاں باپ کا یہ غصہ دیکھتیں اور سہم جاتیں۔ وہ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ جاتیں اور سسکیاں بھرتی رہتیں۔ بیوی سمجھاتی۔ ’’ اتنا غصہ نہیں کرتے۔ خوشی اور غم سب کے ساتھ لگے رہتے ہیں۔ کون ہے جسے کوئی غم نہ ہو؟ انسان اسی وقت غمگین ہوتا ہے جب وہ اپنے غم کو سب سے بڑا غم سمجھ لیتا ہے۔ انسان بڑا نادان ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ سکھ کو ہی دکھ سمجھ لیتا ہے۔ اکثر غم میں ہی خوشی چھپی ہوتی ہے۔ اس لیے خوش رہنے کی عادت ڈالو۔ آخر یہ بچیاں کہاں جائیں؟ یہی جھونپڑی ہی تو ان کی دنیا ہے۔ اور جہاں بچے ہوتے ہیں وہاں شور ہونا تو ضروری بات ہے۔‘‘ مگر خالد کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا۔ وہ اسی طرح اپنی غریبی اور لڑکیوں کے شور و غل کا رونا روتا رہا۔ آخر ایک دن وہ شور و غل سے اتنا پریشان ہوا کہ گاؤں کے ربی کے پاس جا کر دُکھڑا رونے لگا۔ ’’عالی جناب! میں دُکھوں میں گھرا ہوا ہوں۔ غربت سے چھٹکارا نہیں ملتا حالانکہ دن رات محنت کرتا ہوں۔ مگر میری سب سے بڑی پریشانی ہے لڑکیوں کا شور۔ اس شور وغل نے مجھے پاگل بنا دیا ہے۔ کوئی ترکیب ایسی بتائیے کہ مجھے سکون مل جائے۔‘‘ ربی دیر تک آنکھیں بند کیے سوچتا رہا پھر کہا۔ ’’ ایک بلی پال لو۔‘‘ خالد نے تعجب سے کہا: ’’ مگر بلی سے تو شور اور بھی بڑھ جائے گا۔‘‘ ’’جیسا میں نے کہا ویسا ہی کرو۔‘‘ ربی نے مختصر جواب دیا۔ خالد بڑی الجھن میں پڑ گیا۔ مگر ربی سے کیا کہتا؟ کیا ربی گاؤں کا سب سے عقل مند آدمی نہیں تھا۔۔۔ اس نے بلی پال لی۔ اور ہوا وہی جو اس نے سوچا تھا۔ بلی کے آنے سے شور اور زیادہ بڑھ گیا تھا۔ دن رات وہ جھونپڑی میں میاؤں میاؤں کرتی پھرتی۔ اس نے ربی سے جا کر کہا۔ ’’بلی نے تو شور اور بڑھا دیا ہے۔‘‘ ’’یہ بات ہے۔‘‘ ربی نے سر ہلا کر کہا۔ ’’ تو پھر اب ایک کتا بھی پال لو۔‘‘ ’’ کتا پال لوں۔‘‘ خالد گھبرا کر بولا۔ ’’گھبراؤ نہیں بلکہ جو میں کہہ رہا ہوں وہی کرو۔‘‘ ربی نے سمجھایا۔ اس غریب نے مجبوراً کتا بھی پال لیا۔ دن رات بلی اور کتے میں لڑائی ہونے لگی۔ بلی میاؤں میاؤں کرتی اور کتا بھونکتا رہتا۔ وہ پھر ربی کے پاس پہنچا۔ ’’ کتے کے آنے سے تو حالت اور بھی خراب ہو گئی ہے۔ شور اوربڑھ گیا ہے۔ میں کیا کروں؟‘‘ ربی یہ سن کر مسکرایا اور اطمینان سے کہا۔ ’’اچھا تو اب ایک مرغا پال لو۔‘‘ ’’مرغا۔۔۔!‘‘ خالد نے آنکھیں پھیلا کر دُہرایا۔ ’’ہاں مرغا۔‘‘ ربی نے کہا’’ جو کہہ رہا ہوں وہ کرو۔‘‘ اس نے مرغا بھی پال لیا۔ اب تو خالد کے ہوش ہی گم ہو گئے۔ کتا اور بلی اور مرغا سب مل کر وہ اودھم مچاتے کہ اس کی زندگی عذاب بن گئی۔ رات کے پچھلے پہر جب اس پر گہری نیند کا حملہ ہوتا تو مرغا بانگ پر بانگ دینے لگتا۔ وہ بہت پریشان ہو گیا۔ ’’ اب کیا کروں، ربی۔‘‘ اس نے کہا۔ ’’ اب تو جینا مشکل ہو گیا ہے۔‘‘ ربی بڑے سکون کے ساتھ بولا۔’’ اور اب ایک گدھا بھی پال لو۔‘‘ خالد اب کچھ ناراض سا ہو گیا۔ ’’گدھا پال لوں؟‘‘ ’’ہاں۔‘‘ ربی نے بھاری آواز میں کہا۔ ’’ میرا کہنا مانو۔‘‘ اس نے ایک گدھا بھی پال لیا۔ اب تو بس قیامت سی آگئی۔ بلی چوہوں کے پیچھے بھاگتی، کتا بلی پر بھونکتا ، مرغا بانگیں دیتا اور گدھا دو لتیاں چلاتا اور برتن پھوڑتا اور چلا چلا کر دن بھر سکون برباد کرتا رہتا۔ ’’ میں پاگل ہوجاؤں گا، ربی۔‘‘ اس نے رو کر ربی سے کہا۔ ’’ اس سے تو میں پہلے ہی اچھا تھا۔ اُف، یہ شور! میں کیا کروں؟ان جانوروں نے جینا مشکل کر دیا ہے۔ گدھا تو سب سے بڑی مصیبت ہے۔‘‘ ربی نے غور سے اس کی بات سنی۔ ’’اچھا! ‘‘ ربی نے دھیرے سے کہا۔’’ تو گدھے کو نکال دو۔‘‘ خالد نے فوراً گدھے کو جھونپڑی میں سے نکال دیا۔ اگلے دن وہ ربی سے ملا۔ ’’ اب کیسے ہو؟‘‘ ربی نے پوچھا۔ ’’بہتر۔‘‘ خالد نے اطمینان سے کہا۔ ’’ شور تو اب بھی ہے مگر گدھے کے جانے سے عجیب سا سکون ملا ہے۔‘‘ ربی مسکرایا’’ اب مرغے کو بھی نکال دو۔‘‘ ربی نے کہا۔ اس نے مرغے کو بھی نکال دیا۔ ’’ اب کیا حال ہے؟‘‘ ربی نے اگلے دن اس سے پوچھا۔ ’’بہت اچھا۔‘‘ خالد خوش ہو کر بولا۔ ’’ اب کم از کم رات کے آخری پہر بانگیں دے کر نیند خراب کرنے والا کوئی نہیں۔ مرغے کے جانے سے بڑی خاموشی ہو گئی ہے۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے۔‘‘ ربی نے یہ سن کر کہا۔ ’’ اب کتے کو بھی نکال دو۔‘‘ ’’ جو حکم ۔‘‘ خالد نے جواب دیا۔ دو دن بعد وہ ربی سے ملا۔ ’’ اور اب کیا حال ہے؟‘‘ ربی کا سوال تھا۔ ’’اب تو جھونپڑی میں سناٹا سا ہو گیا ہے۔ سکون ہی سکون ہے۔‘‘ خالد نے خوشی سے جھومتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ اب بلی کو بھی نکال دو۔‘‘ ربی نے کہا۔ اس نے بلی کو بھی نکال دیا۔ دو دن بعد خالد ربی سے ملا۔ ’’ اب کیسے ہو؟‘‘ ربی نے سوال کیا۔ خالد نے جواب دیا۔ ’’ربی! جھونپڑی میں اس قدر خاموشی ہو گئی ہے کہ اب تو دل گھبراتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میری بیٹیاں ہیں جن کی میٹھی آواز سے دل بہل جاتا ہے ورنہ اس خاموشی سے میں پاگل ہو جاتا۔ بیٹیوں کا وجود جھونپڑی میں چراغ کی طرح ہے ان کے بغیر جھونپڑی بے نور ہوتی ۔ ایسا سناٹا بھی کس کام کا! بہرحال میں بہت خوش ہوں۔‘‘ ’’ کیا بیٹیوں کے شور سے اب تمہیں تکلیف نہیں ہوتی؟‘‘ ربی نے پوچھا۔ ’’ان کی آوازیں میرے لیے خوشی کا پیغام ہیں۔‘‘ خالد نے جواب دیا۔ ’’ مجھے خوشی مل گئی ہے، ربی۔‘‘ ربی نے کہا۔ ’’خوشی تمہارے پاس ہی تھی، صرف تمہیں اس کا احساس نہیں تھا۔‘‘ اور خالد نے سر جھکا دیا۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
چور پکڑا گیا
چور پکڑا گیا
|
ثناء العزیز
|
’’ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟‘‘ علی بے چارگی سے بولا۔ ’’ٹانگیں اوپر کرو سر نیچے کرو۔ کچھ نہ کچھ ذہن میں آہی جائے گا۔۔۔‘‘ احمد نے مشورہ دیا۔ ’’تم اپنے آزمودہ نسخے اپنے پاس رکھو۔۔۔‘‘ علی نے اسے گھورا۔ ’’ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔‘‘علی نے سر پکڑ لیا۔ ’’ ابو امی کی باقاعدہ میٹنگ ہوئی ہے۔ انہوں نے چور پکڑنے کا بھرپور عزم کیا ہے!!‘‘ ’’کیسا چور۔۔۔؟؟‘‘ احمد نے پوچھا۔ ’’ بھئی فریج کا چور۔۔۔ کھانے کا چور۔۔۔‘‘ ’’ ہیں۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ کھانے کا چور۔۔۔‘‘ احمد نے آنکھیں پھیلائیں۔ ’’ ہاں بھئی ۔۔۔ میں بہت پریشان ہوں۔۔۔ یہ سب کیا ہور ہا ہے؟‘‘ ’’ یعنی تم چور پکڑنے کے لیے سنجیدہ ہو۔‘‘ احمد نے سوال کیا۔ ’’تو اور کیا۔۔۔ اگر وہ مجھے مل گیا تو مار مار کر اس کا کچومر نکال دوں گا۔۔۔‘‘ ’’ ارے ۔۔۔ رے ۔۔۔کیوں بھئی ۔۔۔ اتنا غصہ۔۔۔ صرف کھانے کا چور ہے نا۔۔۔ کوئی قیمتی چیز تو نہیں چرائی۔۔۔‘‘ احمد بولا۔ ’’ نہیں۔‘‘ علی بولا۔ ’’ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ہم چور کا سراغ لگائیں گے۔۔۔ اب تم تفصیل بتاؤ۔۔۔‘‘ ’’ہم گھر میں کل پانچ افراد ہیں۔ امی ابو، عائشہ ، سرمد اور میں۔ کئی دن سے رات کے وقت جو چیزیں ہم نے فریج میں رکھیں وہ پراسرار طور پر غائب ہو رہی ہیں۔ ملازمہ صرف دن میں آتی ہے۔ باہر سے کسی چور کے آنے کا امکان کم ہی ہے۔۔۔ پرسوں فریج میں رکھا گیا کیک غائب ہو گیا۔۔۔ کل آئسکریم ۔۔۔ اس سے پہلے بھی فریج اور کچن سے کئی کھانے کی چیزیں غائب ہوئی ہیں۔ اب امی ابو نے باقاعدہ میٹنگ کے ذریعے یہ بات طے کی ہے کہ چور کو پکڑا جائے۔۔۔‘‘ علی کے چہرے پر پریشانی نمودار ہو گئی۔ ’’دراصل ان کا خیال ہے کہ آج بات یہیں تک ہے کل کو چور مزید کچھ کر سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ چور ہم تینوں میں سے کوئی ہے۔۔۔ یعنی عائشہ سرمد اور میں۔‘‘ ’’بات تو ان کی سو فیصد درست ہے۔‘‘ احمد نے اس پر نظریں جمائیں۔ ’’ کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ علی بگڑ کر بولا۔ ’’ یہی کہ۔۔۔ چور تم ہو۔۔۔!!!‘‘ ’’ کیونکہ وقت بے وقت بھوک لگنے کا تمہیں عارضہ ہے۔۔۔ اور اکثر تم دوسروں کی چیزوں پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہو۔۔۔‘‘ احمد اطمینان سے بولا۔ ’’تم میرے دوست نہیں دشمن ہو۔۔۔ میں تم سے مسئلے کا حل پوچھ رہا ہوں۔ الٹا تم مجھ پر الزام لگا رہے ہو۔۔۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں یہ سب میں نے نہیں کھایا ہے ۔علی غصے سے بولا۔ ’’ بلکہ پرسوں خودبخود میرے کمرے سے کیک غائب ہو گیا۔ ڈبے سمیت۔۔۔ ڈبہ تو بعد میں مل گیا مگر کیک موجود نہیں تھا اور کل آئسکریم کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا‘‘ ’’ کیا کہا۔۔۔ میں نے صحیح کہا تھا نا۔۔۔ چور تم ہی ہو یہ چیزیں فریج سے تمہارے کمرے میں کیا پیدل چل کر آئی تھیں۔۔۔‘‘ احمد اچھل پڑا۔ ’’ہاں تو میں بھی تو اسی لیے پریشان ہوں کہ چور کون ہے؟ جو میری چیزوں پر اتنی ڈھٹائی سے ہاتھ صاف کر رہا ہے۔‘‘ علی بولا۔ ’’واہ یعنی یک نہ چور دو چور۔۔۔ سیر پر سوا سیر۔۔۔الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ احمد مسکرایا۔ ’’ تم اپنی محاورے بازی بند کرو۔‘‘ علی نے جل کر کہا۔ ’’ چلو آج میں کمبائن اسٹڈی کے بہانے تمہارے کمرے میں رات گزارتا ہوں۔ ہم مل کر چور پکڑیں گے۔۔۔ ٹھیک ہے نا۔۔۔!!‘‘ احمد بولا۔ ’’ آج فریج میں کسٹرڈ اور کھیر موجود ہے۔۔۔‘‘ علی نے احمد کو اطلاع دی۔ ’’رات کے دو بج رہے ہیں اور میرا بھوک سے برا حال ہے۔‘‘ ’’اوکے تم کسٹرڈ لے آؤ۔۔۔ آج تمہارے چور سے ہم نمٹ ہی لیں گے۔‘‘ احمد نے کہا۔ ’’ میں چور کی خاطر تواضع کے لیے مکمل طور پر تیار ہوں۔۔۔ یہ دیکھو کرکٹ کا بلا۔۔۔ جوتے ۔۔۔جھاڑو ۔۔۔ سب موجود ہے۔‘‘ احمد نے کہا۔ ’’ یہ رہا تار جس کے ذریعے میں فریج کا لاک کھولتا ہوں۔‘‘ علی نے تار نکال کر دکھایا۔ آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھولا۔ اطمینان کیا کہ سب اپنے کمروں میں محو خواب خرگوش ہیں۔ کچن میں جا کر فریج میں سے کسٹرڈ کا پیالہ نکالا اور آہستگی سے کمرے میں آگیا۔ ’’ یہ یہاں ٹیبل پر رکھ دو۔۔۔ نائٹ بلب کے سوا تمام لائٹس آف کر دو آج چور پکڑا جائے گا۔‘‘ احمد نے کہا۔ ’’ مم۔۔۔ مگر۔۔۔ میں کیا کروں۔۔۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔۔۔‘‘ ’’ چلو تم تھوڑا سا کھا لو۔‘‘ احمد نے گویا احسان کیا۔ ایک گھنٹہ گزر گیا۔ دونوں نظریں ٹیبل پر جمائے ہوئے تھے۔ مگر کسٹرڈ کا پیالہ جوں کا توں رکھا تھا۔ ان دونوں کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہونے لگیں۔ علی نے آنکھیں کھول کر اچھے طریقے سے اطمینان کیا کہ احمد سوچکا ہے۔ پھر دبے پاؤں اٹھا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ ’’ ہیں ۔۔۔ یہ کہاں گیا ہے۔۔۔؟؟‘‘ احمد نے حیرانگی سے اسے جاتے دیکھا۔ وہ سو نہیں رہا تھا صرف آنکھیں بند کر رکھی تھیں ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کھٹکے کی آواز آئی۔ سامنے کھڑی پر موجود پردہ ہل رہا تھا۔ احمد کا سانس سینے میں اٹک گیا۔۔۔ اس نے بیڈ پر ساتھ رکھے بلے پر مضبوطی سے ہاتھ جما دیئے۔۔۔ وہ ساکت لیٹا ہوا تھا اور آنکھیں پردے پر جمی ہوئی تھیں۔ ’’کون ہے وہاں؟؟‘‘اس کی آنکھوں میں خوف جھلک رہا تھا۔ علی گو کہ کسٹرڈ کا آدھا پیالہ کھا چکا تھا۔ لیکن تصور میں میووں سے سجی کھیر کا پیالہ ابھر رہا تھا۔ ’’واہ۔۔۔ مزیدار۔۔۔‘‘ اس نے تصور ہی تصور میں زبان ہونٹوں پر پھیری اور فریج کا دروازہ کھول کر کھیر کا پیالہ لے کر جیسے ہی مڑا۔ ایک افتاد ٹوٹ پڑی۔وہ سر پکڑ کر نیچے بیٹھ گیا۔۔۔ ’’ پکڑاگیا۔۔۔ چورپکڑا گیا۔۔۔‘‘ یہ ابو کی بلند آواز تھی پھر اس میں سب کی آوازیں شامل ہو گئیں۔۔۔ تمام لائٹس آن ہو گئیں۔ علی شرمندگی سے زمین پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔ ’’ چور پکڑا گیا۔۔۔‘‘ احمد نے نعرہ لگایا ۔۔۔ اور دوڑتا ہوا کمرے سے نکلا۔ ’’ پپ پورے چار چور تھے۔۔۔ اوہ خدایا۔ ‘‘وہ بولا۔ ’’ ہیں۔۔۔ چار چور۔۔۔ کک کہاں ہیں؟‘‘ ابو حیران و پریشان تھے۔ ’’ تین بھاگ گئے بس ایک پکڑا گیا۔۔۔!!‘‘ ’’ ہائے ۔۔۔ اوئی اﷲ ۔۔۔ چور۔۔۔‘‘ امی چلائیں۔ ’’ میرے بچے کو کیا ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے سر پکڑے علی کو دیکھا جس کے ماتھے پر ایک گومڑا بھرا ہوا تھا۔ ’’ میرے بچے تجھے کیا ضرورت تھی چوروں سے لڑنے کی۔۔۔ اگر تجھے کچھ ہوجاتا۔۔۔ میں عائشہ کے ابو سے پہلے ہی کہہ رہی تھی چور باہر سے آتے ہیں گھر کے نہیں ہیں۔۔۔‘‘ وہ نہ جانے کیا سمجھ کر علی کو چمٹا رہی تھیں۔ ’’ ارے بیگم۔۔۔ فریج کا چور یہی ہے۔۔۔‘‘ انہوں نے علی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’ ہیں ۔۔۔ کیا کہا۔۔۔ ‘‘ انہوں نے علی کو گھورا۔ ’’تو وہ کمرے میں کون تھے۔۔۔جو احمد بتا رہا تھا۔‘‘ امی نے پوچھا۔ احمد وہاں سے غائب تھا۔ پھر احمد کمرے سے آتا دکھائی دیا۔ ’’ یہ رہا کھانے کا چور۔۔۔ اس کے تین عدد ساتھی بھاگ گئے۔۔۔ یہ میری زد میں آگیا۔۔۔‘‘ احمد نے ایک مرے ہوئے چوہے کو دم سے پکڑ رکھا تھا۔ علی حیرت سے چوہے کو دیکھ رہا تھا اور ابو حیرت سے علی کی طرف۔۔۔ ’’یہ کیا کہانی ہے؟‘‘احمد نے انہیں ساری بات بتائی۔ ’’ علی کے چور کو تو اپنی سزا مل گئی ۔۔۔ اب ہمارے چور کی سزا یہ ہے کہ اس کا جیب خرچ بند۔۔۔‘‘ ابو نے کہا۔ اور انکل ایک عد دڈاکٹر کی بھی ضرورت ہے۔۔۔ تاکہ اس کی بے وقت بھوک کا علاج بھی کیا جا سکے۔۔۔!!‘‘ احمد بولا ’’ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ ’’ ابو ڈاکٹر کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ پلا دیتے ہیں۔۔۔ فوراً ٹھیک ہوجائیں گے۔۔۔‘‘ سرمد نے کچن میں رکھی کیڑے مار دوا کی طرف اشارہ کیا۔ سب کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ *۔۔۔*
|
آخری رات
آخری رات
|
حماد ظہیر
|
میرے ذہن میں شاندار قسم کی ترکیبیں آرہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے نت نئے اور اچھوتے خیالات ریل گاڑی میں بیٹھ کر میرے سر میں آرہے ہوں کہ ایک ڈبہ ٹھیک سے دیکھ بھی نہ پاتا کہ اگلا آجاتا اور پھر اس کا اگلا! میرے سامنے کتاب تھی اور ہاتھ میں قلم۔۔۔ ایک خالی رجسٹر بھی منہ کھولے بیٹھا تھا۔ اس کے اوپر رکھا کیلکولیٹر گویا اس کی زبان کی کمی پوری کر رہا تھا۔ میں کرسی پر براجمان گہری سوچوں میں غرق تھا۔ اس وقت ذہن کی پرواز کا یہ عالم تھا کہ اگر جہاز ایجاد نہ ہو چکا ہوتا تو میں جہاز ایجاد کر لیتا، ایٹم بم نہ بنا ہوتا تو بنا ڈالتا۔ کمپیوٹر کی تخلیق نہ ہوئی ہوتی تو وہ بھی کر ڈالتا اور اگر ڈی این اے کا کوڈ دریافت نہ ہوا ہوتا تو وہ بھی آج میرے ہاتھوں دریافت ہو ہی جاتا۔ میری آنکھوں میں اس وقت وہ رنگ تھے کہ انہیں صفحات کے قرطاس پر منتقل کرتا تو صادقین اور لیونارڈو شرما جاتے، سماعتوں میں وہ ساز تھے کہ جو تان سین کو خاموش کرا دیتے۔ زبان پہ وہ شعر تھے جو غالبؔ و میرؔ کو سکتہ میں مبتلا کر دیتے اور ایسے بہت سے خیالات میرے ذہن میں ٹھاٹیں مار رہے تھے جو دنیا کا نقشہ تبدیل کر سکتے تھے، لیکن بس ایک چھوٹا سا مسئلہ تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ میرے پاس ان تمام چیزوں کو عملی جامہ پہنانے کا وقت نہیں تھا، کیوں کہ کل سے میرے امتحانات شروع ہو رہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح میں نے سارا سال پڑھائی نہ کی تھی اور اب ہی اس نیک کام کاموقع ملا تھا۔ اب بھی اگر پڑھائی نہ کرتا تو یقیناًفیل ہوتا۔ مجھے حیرت تھی اس بات کی کہ سارا سال مجھے یہ نادر اور اچھوتے خیالات کیوں نہ آگئے ورنہ میں کتنوں ہی پر عمل درآمد کرکے ایک عظیم شخصیت بن چکا ہوتا۔ میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ امتحانات ختم ہوتے ہی ایک ایک کرکے سارے کام ہی کر گزروں گا۔ ڈرائنگ ، پینٹنگ، کیلی گرافی، کہانی نویسی، شاعری اور نت نئی ایجادات کی تفصیل۔ ہاں بھئی ۔۔۔ نئی ایجادات کو پہلے سوچا ہی تو جاتا ہے، زمان و مکاں سے بے نیاز ہو کر ۔ جیسے ہوائی جہاز اور ٹیلی ویژن کے بارے میں سوچا گیا جیسے ٹینک اور میزائل کے بار ے میں سوچا گیا، پھر کسی جیالے نے ان کو حقیقت بھی بنا ڈالا۔ دل پر بڑے بڑے پتھر رکھ کر میں نے ان تمام خیالات کو پس پشت ڈالا اور مجبوراً کتاب اٹھا کر پڑھنی شروع کی۔ صبح امتحان تھا ، تقریباً بارہ مضامین پڑھنے تھے۔ میں نے جو تیز تیز پڑھنے شروع کیے تو آدھے آھے گھنٹہ ہی میں ایک ایک سبق نمٹا دیا۔ واہ بھئی! کہاں تو سر نے انہیں سارا سال پڑھایا اور کلاس میں کتنی مغز ماری کی۔ جبکہ یہ تو بیس پچیس منٹ کی مار نکلے۔ حارث کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر بحث کیا کرتا تھا، یہ تو انتہائی آسان تھیں، کاش کہ میں نے پہلے یہ سبق پڑھ لیا ہوتا تو راج کرتا کلاس میں۔ میں نے افسوس کے ساتھ سوچا۔ پھر میں نے ایک عزم اور کیا۔ اگلے سال سارے سبق پہلے سے پڑھ کر جایا کروں گا۔ جب ایک رات میں بیٹھ کر بارہ اسباق پڑھ سکتا ہوں تو بھلا ایک پڑھنے میں کیا دقت ہوگی۔ بھرم پڑ جائیں گے کلاس پر۔ پھر آٹھ اسباق ہی پڑھے ہوں گے کہ خیال آیا کہ کچھ منہ کا ذائقہ تبدیل کیا جائے۔ الماری میں رکھی کتابوں کے نام میری آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے۔ وہی کتابیں جو سارا سال الماری میں پڑی سڑتی رہتی تھیں اس وقت مجھے انتہائی دلچسپ معلوم ہونے لگیں۔ منشی پریم چند ہوں یا قرۃ العین حیدر، سب مجھے بھلے لگنے لگے۔ ابھی تو تھوڑی سی چکھ لیتا ہوں، امتحانات کے بعد پوری پوری پڑھوں گا۔ کمال ہے، اتنے بڑے نامو ر ادیب گھر میں پڑے ہیں اور پڑھے نہیں گئے۔ میں نے دل ہی دل میں ایک اور فیصلہ کیا۔ کتاب اٹھائی تو رکھنے کا جی ہی نہ چاہا۔ کاش یہ پرچہ ایک دن بعد ہوتا۔ صرف ایک دن بعد تو نہ صرف یہ کتاب پوری ختم کرتا بلکہ کورس کی کتاب بھی ایک مرتبہ اور دہرا لی جاتی۔ جس دل سے میں نے ادبی کتاب کو رکھ کر نصابی کتاب اٹھائی میں ہی جانتا تھا۔ پھر نیند نے اپنا قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ واہ۔۔۔ کیا نعمت ہے یہ نیند بھی۔ دنیا کے سارے لوگ کس مزے سے پڑے سو رہے ہیں۔ وہ بھلا کیا جانیں میں کس قدر ذہنی کوفت کا شکار ہوں۔ جاگ جاگ کر علم حاصل کررہاہوں۔ بہرحال، میں نے بھی تو باقی ساری راتیں سو کر ہی گزاری ہیں۔۔۔!! اس وقت تو کبھی یہ نہ سوچا کہ کون کون پڑھائی کرنے میں راتیں جاگ رہا ہے۔نیند بھی کیا چیز بنائی ہے خدا نے، واہ واہ۔۔۔ *۔۔۔* آنکھ کھلی تو وین آنے میں چار منٹ باقی تھے۔ وین نکل جاتی تو بس سے جانے میں پیپر نکل جاتا۔ جو نظر آیا پہنا، جو ہاتھ آیا بستہ میں ٹھونسا اور باہر بھاگا۔ چار باب چھوڑ دینے کے باوجود پیپر بہت برا نہیں ہوا۔ لیکن اتنا برا ضرور تھا کہ اگلے پرچوں کیلئے کمر کس لی اور خوب ڈٹ کر تیاری کی۔ خدا خدا کرکے امتحانات ختم ہوئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فوراً اپنے انوکھے خیالات کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے لیکن سوچا ایک دو روز تو تھکن اتاریں کہ دن رات ایک کرکے پڑھا تھا۔ کئی راتیں جاگے بھی تھے۔ پھر ایک ہی دو روز میں بے شمار کاموں نے گھیر لیاکہ جیسے شہر کے چھتے کو چھیڑ دیا ہو اور ساری کی ساری مکھیاں ہٹائے نہ ہٹ رہی ہوں۔ امی نے کہا کہ دو ہفتہ امتحانات کی وجہ سے کوئی کام تم سے نہیں کرایا لہٰذا اب یہ یہ کام تم ہی انجام دو۔ کمپیوٹر لاک تھا کھل گیا۔ کرکٹ کی کٹ لو کر سے نکل آئی۔ دوستوں کے فون پر پابندی اٹھ گئی وغیرہ وغیرہ ۔ غرض جو سکون اور مہلت امتحانوں میں حاصل ہوتی تھی وہ نہ رہی۔ اب ایسی صورتحال میں کہاں سے آتیں تخلیقی صلاحیتیں اور کیسے ملتا انہیں پروان چڑھانے کا وقت مجھے یاد ہی نہ رہا کہ امتحانوں کے دوران کیا کیا منصوبے بنائے تھے، اور کیا کیا سوچا تھا۔ تمام خواب ادھورے پڑے رہے مرے بڑے دنوں بعد ایک روز اچانک یاد آیا اور میں سارے کام کاج چھوڑ کر کم از کم ایک آئیڈیے پر تو فوراً ہی کام کرنے بیٹھ گیا۔ تین چار گھنٹے کی محنت کے بعد میں ایک شہ پارہ بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ پینٹنگ میں نے انتہائی جانفشانی اور باریک بینی سے بنائی تھی۔ گو کہ وقت بہت خرچ ہوا تھا لیکن سینری ایسی بنی تھی کہ اس میں کھو جانے کا جی چاہتا تھا۔ مزید آدھا گھنٹہ تو میں نے اسے دیکھنے میں ضائع کیا اور شاید یہ مزید طویل ہوجاتا اگر سارہ نہ آجاتی۔ ’’بھائی صاحب۔۔۔ میرے واٹر کلرز آپ لے کر آئے ہیں اور ہائیں۔۔۔ کل صبح آپ کا فائنل پیپر ہے اور آپ موصوف بیٹھے ڈرائنگ بنا رہے ہیں، چلیے پڑھائی کیجئے۔‘‘ اور میں سوچنے لگا کہ اگلے سال تو ضرور ہی روزِ اوّل سے پڑھائی کروں گا ، تاکہ آخری رات جاگ کر نیند نہ خراب کرنی پڑے۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
وہ پندرہ منٹ
وہ پندرہ منٹ
|
راشد علی نواب شاہی
|
’’ بھئی ! کیا دیہاڑی لو گے؟‘‘ ’’دو سو روپے۔‘‘ سیٹھ اکرم کے سوال پر فضل مزدور نے جواب دیا۔ ’’کام ساڑھے چار بجے تک کرنا ہوگا۔اور ہاں! کھانے کا وقفہ پون گھنٹے کا ہو۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے جناب!‘‘ فضل مزدور نے سعادت مندی سے جواب دیا۔ سیٹھ اکرم جو تعمیرات کا کام کرتے تھے ۔ بڑے کام ٹھیکے پر کرواتے تھے۔ جب کہ چھوٹے موٹے کام دیہاڑیوں پر کرواتے تھے۔ وہ مزدوروں سے بڑے بدظن تھے۔ ان کا تجربہ تھا کہ دیہاڑیوں پر کام کرنے والے مزدور سست روی سے کام کرتے ہیں اور کھانے کے وقفے میں پانچ دس منٹ تاخیر سے کام شروع کرتے ہیں جب کہ ٹھیکے پر دیئے ہوئے کام میں کاری گر اور مزدور جلد سے جلد کام نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج سیٹھ اکرم صاحب اپنے ذاتی گھر کا کام کروا رہے تھے ۔ اس لیے فضل مزدور کو پہلے سے ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا۔ سیٹھ اکرم معاملے کے کھرے آدمی تھے۔ ایک عادت ان میں یہ بھی تھی کہ کاری گر اور مزدوروں کی اجرت ان کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ *۔۔۔* ساڑھے بارہ بجے تو مستری اور مزدور کھانے کے وقفے کے لیے جانے لگے ۔ فضل نے بھی جانے کی اجازت چاہی۔ ’’ہاں جاؤ! مگر ٹھیک ڈیڑھ بجے کام پر ہونا چاہیے۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے جناب!‘‘ فضل نے اثبات میں سر بھی ہلایا۔ فضل جب آیا تو ایک بج کر 45منٹ ہو رہے تھے۔ دوسرے مزدور کام کررہے تھے۔ فضل پورے پندرہ منٹ کی تاخیر کر چکا تھا۔ سیٹھ اکرم نے اسے غصیلی نظروں سے گھورا اور اس نے تہیہ کر لیا کہ پندرہ منٹ کی مزدوری کم دوں گا۔ *۔۔۔* شام کے چار بجے تو سارے مزدور اور کاری گر سیٹھ اکرم کے پاس جمع تھے اور سیٹھ اکرم ہر ایک کی دیہاڑی دے رہا تھا۔ سب لوگوں کی دیہاڑی دینے کے بعد اس کی نظر فضل پر پڑی جو ہودی میں پڑی گیلی اینٹیں دوسری منزل پر لے جا رہا تھا۔ ’’ بھئی ! اپنی دیہاڑی لے لو۔‘‘ ’’ پندرہ منٹ بعد لوں گا۔‘‘ ’’ پندرہ منٹ تاخیر کیوں؟‘‘ سیٹھ اکرم نے پوچھا۔ سیٹھ صاحب پہلے نماز ادا کی اور پھر مجھے تندور سے روٹی لینی تھی ، تندور والے کے پاس بہت رش تھا۔ جس کی وجہ سے پندرہ منٹ لیٹ ہو گیا۔ اب وہ پندرہ منٹ پورے کرکے ہی اپنی اجرت لوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر اینٹیں اٹھا کر دوسری منزل کی طرف لے جانے لگا۔ جب تک فضل مزدور نہیں آیا سیٹھ اکرم اس احساس میں گم تھے کہ اس کائنات کا حسن بناوٹ اور سج دھج انہی مزدوروں کی مرہونِ منت ہے۔ یہ بے چارے دیہاڑی کے دیہاڑی کام کرتے ہیں۔ آج کے فضل کے طرز عمل نے بتا دیا کہ ہر مزدور ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ایسے ایماندار لوگ اب بھی موجود ہیں۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
جنگلات کی اہمیت
جنگلات کی اہمیت
|
قمرنازدہلوی‘کراچی
|
جنگلات انسانی زندگی کے لئے اورجنگلی جانوروں کی بقاء کے لئے ضروری ہیں۔ جنگلات سے ہمیں طبی اہمیت کی جڑی بوٹیاں‘ عمارتی لکڑی اورجلانے والی لکڑی حاصل ہوتی ہیں۔ جنگلات کسی جگہ کی آب وہوا کو تبدیل کرنے میں بھی اہم کردار اداکرتے ہیں۔ درختوں کے پتوں سے پانی کے بخارات ہوا میں داخل ہوتے ہیں تو ہوا میں نمی کا تناسب موزوں رہتاہے۔ اور آب وہوا خشک نہیں ہونے پاتی۔ یہی بخارات اوپرجاکر بادلوں کی بناوٹ میں مدد دیتے ہیں۔ جس سے بارش ممکن ہوجاتی ہے۔ ویسے بھی درخت بادلوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ جنگلات انسانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ جنگلی حیوانات کے لئے بھی سود مند ہوتے ہیں۔ وہ انہیں خوراک اورتحفظ مہیاکرتے ہیں اور ان کی افزائش نسل اور پرورش کے لئے جگہ فراہم کرتے ہیں۔ جنگلی جانوروں اورپودوں کا آپس میں گہرا تعلق ہوتاہے۔ اس لئے جنگلات کی کمی سے جنگلی جانوروں کی بقاء بری طرح متاثر ہوتی ہے اورماحولیاتی نظام درہم برہم ہوجاتاہے۔ جنگلات کی غیرموجودگی میں زمین پربرسنے والی بارش اپنے ساتھ مٹی بھی بہاکرلے جاتی ہے جس سے زمین مٹی میں موجود غذائی اجزاسے محروم ہوجاتی ہے۔ جب بارش سے سیلاب آتے ہیں تو جنگلات کے درختوں کی جڑیں زمین کو اسفنج کی طرح بنادیتی ہیں۔اور یہ زمین بہت سا سیلابی پانی روک لیتی ہے۔ جس سے سیلاب کے پانی کی رفتار کم ہوجاتی ہے اس لئے وہ زمین کا کٹاؤ کرنے کے قابل نہیں رہتا اور زمین کی زرخیزی بھی بڑی حد تک ضائع ہونے سے بچ جاتی ہے۔ دراصل درختوں کی جڑیں مٹی کے ذرات کوباہمی طورپر اچھی طرح پکڑلیتی ہیں۔ جس سے زمین نہ صرف سیلابی پانی کے کٹاؤ سے محفوظ رہتی ہے بلکہ سیلاب کے گزرجانے کے بعد ہوا کے کٹاؤ سے بھی زمین کی اوپری سطح کی زرخیزمٹی کو اڑاکر دورچلے جانے سے روک لیتی ہے۔ غرض اس طرح پہاڑی ڈھلانوں پردرختوں کی موجودگی سے ان علاقوں کی زرخیزی متاثرنہیں ہوتی۔ چونکہ جنگلات سیلابی پانی کی رفتارکم کرتے ہیں اورزمین کوکٹاؤ سے بچاتے ہیں اورزمین کی زرخیزی کو قائم رکھتے ہیں۔ اس لئے جب بھی جنگلات کاٹے جائیں تو ان جگہوں میں نئے درخت لگادیئے جائیں تاکہ جنگلا کاعلاقہ کم نہ ہونے پائے۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
’اپنی اپنی دنیا میں خوش‘‘
’اپنی اپنی دنیا میں خوش‘‘
|
ریحانہ کوثر
|
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم اسکول پڑھتے تھے۔ اور ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے ہیں۔ بہت اچھی شاعری تھی۔ اسکول میں بھی سب شاعرہ کہہ کرپکارتے تھے اورانٹرویل کے بعد سب دوستوں کو میں اپنی شاعری سناتی تھی۔ مس بہت داد دیتیں۔ کلاس ٹیچربھی ہم سے بہت پیارکرتی تھیں اور سب گھروالے بھی بہت پیارکرتے تھے۔ وقت گزرتارہا اور میری شاعری چمکنے لگی میں مختلف رسالوں خط بھیجتی رہتی۔ تاکہ کسی بھی طرح میں شاعری میں نام کماؤں مجھے بچپن ہی سے چاند اورآسمان سے بہت پیارتھا۔ اتنا کہہ لیں کہ جنون کی حدتک ۔ کبھی کبھارتو بیٹھے بٹھائے میں چاند پرشعرلکھنا شروع کردیتی۔ ایک دفعہ ابّوکی ٹانگ میں درد ہورہی تھی ابّو نے کہا بیٹا ٹانگیں دبادو میں ٹانگیں دبانے بیٹھتی تو شعرسوچنے لگ جاتی اور کچھ ہی لمحوں بعد چہک اٹھتی وجہ یہ ہوتی کہ میں اپنے شعر بنانے میں ہوجاتی اور ابوّ سے کہتی کہ پانی پی کر آتی ہوں میں جلدی سے کمرے میں جاتی اور جلدی سے صوفے کی گدّی اٹھاکر کاپی اٹھاتی۔ اور شعر لکھ بیٹھتی اوربہت خوش ہوتی۔ جب زندگی میں پہلی بار میرا شعر رسالے میں چھپا تھا تو میری آپی کی دوست نے اسے فون پر بتایا کہ میرا شعر چھپاہے میری خوشی کی تو انتہا نہ رہی تھی۔ انہی دنوں ہم نئے اسکول میں داخل ہوئے تھے جس کی خریداری کے لئے آپی میں اور چھوٹی بہن عائشہ ابوّ کے ساتھ گئے تھے۔ ہم نے جب خریداری کرلی تو ابوّ نے کہاکہ بیٹا پیدل جانا ہے یا گاڑی میں بیٹھ کر۔ مجھے اس قدرخوشی تھی کہ میں نے کہا پیدل چلتے ہیں اورجاتے ہوئے رسالہ لے آتے ہیں ابو نے کہا ٹھیک ہے پیدل چلتے ہیں۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے۔ اندھیرا چھایا ہوا تھا مگر لائٹوں کی وجہ سے اندھیرے کا کچھ خاص علم نہیں ہورہا تھا جوں توں کرکے ہم رسالے کی دکان پر پہنچے اور رسالہ خریدا میری خوشی کی انتہا نہ تھی جی چاہ رہا تھا کہ رسالے کی دکان پر ہی اچھلنا شروع کردوں۔ لیکن میں نے اس طرح کی کوئی حرکت نہیں کی۔ اتفاق سے ہی جمعرات کا دن تھا اور ہرجمعرات کو امیّ خیرات کرتی تھی۔ امیّ نے جلیبیاں منگوائی ہوئی تھی نمک پارے اور بوندیاں بھی۔ لہٰذا مجھے مٹھائی منگوانے کی ضرورت نہ پڑی۔ میں گھرآتے ہی امیّ سے گلے ملی۔ یوں لگ رہاتھا کہ صدیوں بعد جیسے کوئی مہمان آکرملتاہے۔ خیراس دن خوشی کا اظہارمیں مل کر کر رہی تھی سب نے مجھے شعر چھپنے کی مبارکباد دی۔ میں نے جواب میں خیرمبارک کہا اور سب کو گھرآئی ہوئی جلیبیاں کھلائیں۔ اور بہت خوش ہوئی۔ امیّ نے کہاکہ بیٹا اسی طرح یہ کائنات بھی’’اپنی اپنی دنیا‘‘ میں خوش ہے۔ خدا تمہیں بھی خوش رکھے۔ (آمین) *۔۔۔*۔۔۔*
|
اب کیاکریں!!
اب کیاکریں!!
|
نمرہ عباسی
|
ہماری گزشتہ گرمیوں کی چھٹیوں کا حال تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔کیا۔۔۔نہیں یاد ارے ۔۔۔وہی۔۔۔’’دھڑدھڑدھڑام‘‘۔۔۔یادآگیانا! لیکن اس دفعہ تو ہم نے نیا منصوبہ بنایا کہ ہم پچھلی والی ’’دھڑ دھڑدھڑامیں‘‘ ہرگزبھی نہیں دہرائیں گے۔بھئی ہم نے سوچاکہ اس دفعہ کیوں نہ ہم یہ کریں‘ وہ کریں‘ ارے ہاں! وہ تو بہت ہی اچھارہے گا اور یہ سوچتے سوچتے دور بہت دور کسی بادشاہ کے زمانے میں جاپہنچے۔ دربارمیں حاضری کے بعد بادشاہ نے ہمیں درباری بننے کی پیش کش کی۔ ہم جھٹ بادشاہ کے دائیں بائیں بنی قطاروں میں کھڑے دو وزیروں میں سے پہلے کو ’’ڈھش کرکے‘‘ دھکا دے کر کھڑے ہوگئے‘ آخر تجربہ بھی تو تھا ہمیں کراچی میں بل جمع کرانے کا۔ بادشاہ وقت بہت سٹپٹائے‘ لیکن ہمارے بارے میں کسی نے ان کو بتادیا تھا کہ صاحب نئی دنیاسے آئے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک ڈبیاہے جس کے اوپر چوکور چوکور خانے بنے ہوئے ہیں جس کے دباتے ہی قدرت کے کرشمے نظرآنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اپنے ’’موبائل فون‘‘ کا اس قدرلمبا تعارف سن کر پہلے تو ہماری شکلیں عجیب وغریب سی بنیں‘ لیکن پھر اپنے کرشماتی گولے سے کام لیا۔ ارے بھئی! دماغ بھی تو کرشماتی گولاہی ہے۔ بادشاہ سلامت (پتہ نہیں ہو یا نہیں ہو) کے دل ادب واحترام اوربڑھ گیا‘ کہنے لگے ’’لیکن ہمارے یہاں ایک اصول ہے کہ ہرنئے شخص سے ایک سوال کیاجاتاہے اور اگر سوال کا جواب دے دیاتو درباری پکیّ۔ سوال۔۔۔لفظ ’’سوال‘‘ سنتے ہی ہمیں وہ بھکاری یاد آگیا جس کے ایک روپیہ دینے کے سوال کا جواب ہم نے نفی میں دیا اورپھر۔۔۔ڈھش کرکے ایک زوردار تواضع ہوئی تھی ہماری۔ ’’ہاں تو جناب سوال یہ ہے کہ بتاؤ ہمارے محل کے باغ میں اس وقت کتنے درخت موجود ہیں۔‘‘بادشاہ گویاہوئے ۔ م م م م ۔۔۔آپ کے محل میں اتنے درخت ہیں‘ اتنے درخت ہیں۔۔۔ہم نے باغ میں نظردوڑاتے ہوئے کہا جب ہمیں تھوڑے ہی نظرآئے تو ہم نے کہا اتنے ۔۔۔کہ جتنے بال آپ کی مونچھوں کے ہیں۔ بادشاہ بولے‘ ’’اوربھلا ہماری مونچھوں میں کتنے بال ہیں ؟؟؟؟ ہم نے جھٹ عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈھش کرکے جیب سے بلیڈ نکالا اور پلک جھپکنے میں ہم بادشاہ سلامت کی مونچھوں کے بال گن رہے تھے۔۔۔ایک سودو۔۔۔ایک سو تین۔۔۔ ہم نے اوپر منہ اٹھاکر دیکھا تو بادشاہ کچھ ناگوار تاثرات چہرے پر لئے کھڑے تھے‘ ہم نے ان کو بغیر مونچھوں کے دیکھا تو بے اختیار آنکھیں بندکرکے قہقہہ لگایا۔۔۔لیکن ۔۔۔ ڈھش کرکے زوردار وارہوا اور پلک جھپکتے میں ہم اپنے دانتوں کے ٹکڑے گن رہے تھے۔۔۔ایک سو دو‘ ایک سو تین۔۔۔ ہمارے ’’شاہی کمرے‘‘ کا دروازہ ’’ڈھش کرکے ‘ بہت دیرسے بج رہاتھا‘ ہم نے کہا کون ہوگا‘ ہوگا کوئی نوکر ووکر‘ ہمیں جگانے آیاہوگا‘ جب دروازہ بہت دیرتک بجتا رہا تو اچانک خود ہی کھل گیا۔ ہم نے بغیرآنے والے کو تمیز سکھانے کی غرض سے تکیہ دے مارا لیکن یہ کیا۔۔۔تکیہ نیوٹن کے قانون کے مطابق برابر قوت لیکن الٹی سمت میں واپس آکرہم سے ٹکرا گیا۔ غصہ توہمیں بہت آیا لیکن جب اظہارکرنے کے لئے آنکھیں کھولیں تو پتہ چلا کہ ہم کہانی لکھتے لکھتے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ پتہ ہے کہ نیوٹن کا قانون بجالانے والا شخص کون تھا؟ کوئی نہیں‘ صرف ’’ہماری بہن‘‘۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
بات کرنے کاانداز
بات کرنے کاانداز
|
محمدشعیب ڈرگی
|
ایک بادشاہ نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا ۔جس سے وہ خاصا پریشان ہوا۔ اس نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ ملک بھرسے خوابوں کی تعبیربتانے والوں کوبلوایاجائے۔ حکم کی تعمیل ہوئی آناً فاناً ملک کے مشہورومعروف تعبیرکرنے والے اکٹھے ہوگئے۔ یہ سب کے سب تعبیربتانے کے ماہرتھے۔ بادشاہ نے ان کے سامنے اپنا خواب بیان کیا’’میں صحیح سالم اپنے اقتدارپر براجمان ہوں‘ اچانک میرے دانت یکے بعد دیگرے گرنے شروع ہوگئے۔ حتیٰ کہ میرے منہ میں کوئی بھی دانت باقی نہیں رہا‘‘۔ جب معتبرین (خواب کی تعبیربتانے والوں) کے سامنے یہ خواب بیان ہوا۔ تو اکثر وبیشترنے بادشاہ کے خواب کی کوئی نہ کوئی تعبیر بیان کی۔ تاکہ بادشاہ کی پریشانی دورہوجائے۔تمام نے اس کو تسلّی دی۔ مگر ان کی تعبیر بادشاہ کے دل کو نہ لگی۔ انہی معتبرین میں سے دو آدمی ایک گوشے میں خاموش بیٹھے تھے۔ بادشاہ دیکھ رہاتھا کہ انہوں نے گفتگومیں حصہ نہیں لیا۔ بادشاہ نے ان کو مخاطب کرکے کہا:تمام نے تعبیربیان کی ہے۔ تم کیوں نہیں بولے؟ تم بھی خواب کی تعبیربیان کرو۔ ان میں سے پہلا کہنے لگا جناب! مجھے اس خواب کی تعبیربیان کرتے ہوئے نہایت افسوس ہو رہا ہے ‘ مگر کیاکیاجائے۔ حق تو بیان کرناہی ہوتاہے۔ بادشاہ نے کہا: ہاں ہاں !کیا تعبیرہے؟ جناب بادشاہ سلامت! آپ کی تمام اولاد آپ کی آنکھوں کے سامنے یکے بعددیگرے وفات پاجائے گی۔ یقیناًآپ کو اس سے نہایت غم اور رنج ہوگا۔ جس سے آپ بھی وفات پاجائیں گے۔ جب بادشاہ نے یہ تعبیرسنی تو اس کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ اس کو نہایت صدمہ ہوا۔ اس کی آنکھیں غصے سے لال پیلی ہونے لگیں۔ سخت پریشانی کے عالم میں وہ حواس باختہ ہوکر چیخا: اس معّبرکو میری آنکھوں کے سامنے سے لے جاؤ اور اس کو جیل میں ڈال دو۔ تھوڑی دیرکے بعد اسے قدرے سکون ہوا۔ اس نے دوسرے معبّرکی طرف دیکھا اورکہنے لگا۔ تم بتاؤ تمہارے نزدیک میرے خواب کی کیا تعبیر ہے؟ ’’جناب بادشاہ سلامت! آپ نہایت لمبی عمر پائیں گے ۔ اپنے خاندان کے تمام افراد سے لمبی عمر۔۔۔اور آپ کے خاندان کا ہرفرد یہ خواہش اورتمنا رکھتاہے کہ آپ ان سب سے لمبی عمرپائیں‘‘۔ (اس تعبیرکا مفہوم وہی ہے جو پہلے معبّرنے بتائی ہے) یعنی خاندان کے سارے افراد سے زیادہ عمر بادشاہ کو نصیب ہوگی اوربقیہ سارے لوگ اس کی آنکھوں کے سامنے مرجائیں گے۔ بادشاہ نے سنا تو اس کی تمام ترپریشانیاں دورہوگئیں۔ چنانچہ اس نے وزیرکوحکم دیا کہ اس کو شاہی جوڑے اور انعام واکرام سے نوازاجائے۔ اگرہم تھوڑی دیرکے لئے غورکریں تو دونوں معبّرین کے کلام میں کوئی فرق نہیں۔ مگرآدمی کی ذہانت اور دانائی اس کو بہت سارے مسائل سے نجات دلاتی ہے۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
اف یہ امتحانات
اف یہ امتحانات
|
فصیح اﷲ حسینی
|
ویسے تو سال کے اندر چار موسم ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ سال کے اندر چار سے بھی زیادہ موسم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مہنگائی کا موسم، جو کہ رمضان کے مہینے میں آتا ہے۔ (لیکن کچھ عرصہ سے یہ موسم سارا سال رہنے لگا ہے) بارش کا موسم جو کہ جون جولائی میں آتا ہے۔ لیکن ہمیں ان موسموں سے کیا لینا، چونکہ ہم طالب علم ہیں اس لیے اﷲ تعالیٰ نے ان علم کی طلب رکھنے والوں کیلئے بھی (جن میں ہمارا بھی شمار ہوتا ہے) ایک موسم رکھا ہے اور یہ موسم ہوتا ہے امتحانات کا۔ اب ہم اس موسم کو اپنی خوش نصیبی سمجھیں یا بدنصیبی ۔ لیکن بہرحال ہر طالب علم کو اس موسم کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ ہم بھی کیا لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ مضمون ہے یا فلسفہ کا لیکچر! خیر اب ہم آپ کو اپنے اصل موضوع کی طرف لے کر چلتے ہیں ۔ دراصل ہم آپ کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ امتحانات کے موسم میں آنے والی آفات اور مشکلات سے کس طرح نمٹا جائے اور کس طرح ان کا مقابلہ کیا جائے کہ اتنا بڑا ’’سونامی‘‘ آکر گزر جائے اور آپ کو پتہ نہ چلے۔ اب یہ نہ پوچھئے گا کہ ہم آپ کو یہ باتیں کیوں بتا رہے ہیں اور ہم ہی کیوں بتا رہے ہیں۔ خیر جب بھی امتحانات کا موسم شروع ہوتا ہے تو ہر طالب علم ان چار مسائل کا شکار پریشان پریشان پھرتا نظر آتا ہے۔ ۱۔ پہلا مسئلہ: جو ہر طالب علم کو درپیش ہوتا ہے وہ یہ کہ کسی طرح جلدی جلدی ہوم ورک مکمل کیا جائے۔اگست کے مہینے سے سیشن شروع ہوتا ہے تو نیا نیا کورس سمجھنے کیلئے ایک دو مہینے لگ جاتے ہیں اور کام ۔۔۔ آگے والا ہوتا نہیں اور پچھلے والا سنبھلتا نہیں۔ اپنی کاپیوں کو لال لال نشانات سے بچتے بچاتے وقت گزرتا چلا جاتا ہے۔ رہے آخر کے تین مہینے تو امتحانات سر پر کھڑے ہوتے ہیں اور یہ سوال کھڑا ہو جاتا ہے کہ اپنا کام مکمل کریں یا نوٹس لے کر یاد کرنا شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ سوچتے سوچتے امتحانات کا مہینہ بھی آجاتا ہے۔ بہرحال کچھ عقلمند طالب علم یہ سوچ کر دیر آید درست آید کے مصداق نوٹس خرید لیتے ہیں۔ ۲۔ دوسرا مسئلہ: دوسرا مسئلہ جس کا سامنا تمام طالبعلموں کو ہی کرنا پڑتا ہے وہ یہ کہ یاد کریں ؟ کہاں سے کریں؟ اور کیسے کریں؟ اور ہر طالب علم امتحانات کے سوالات یاد کرنے کے بجائے ان تین ’’ک‘‘ کے جوابات تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بالآخر ضمیر گواہی دیتا ہے کہ ’’اﷲ مالک ہے۔‘‘ ۳۔ تیسرا مسئلہ: یہ مسئلہ کچھ بھی یاد نہ ہونے کی وجہ سے کھڑا ہوجاتا ہے کہ یاد تو کیا نہیں اب نقل پر ہی آسرا ہے۔ اب اس مسئلے کے حل کیلئے سرتوڑ (اور ٹانگیں جوڑ) کوششیں شروع ہوجاتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ نقل کیلئے بھی عقل کی ضرورت ہے۔ لہٰذا جو عقل سارا سال استعمال ہونے سے قاصر رہتی ہے۔ اس کا استعمال ان مواقع پر ہوتا ہے۔ شاید اسی دن کیلئے یہی عقل بچا کر رکھی جاتی ہے۔ کچھ طلبہ پتلون کی جیبوں میں اضافہ کر لیتے ہیں۔ کچھ طلبہ امتحانی سینٹرز کی معلومات کیلئے چکر کاٹتے رہتے ہیں اور کچھ کو نقل کرنے کے چکر میں عقل بھی کھو بیٹھتے ہیں اور بنیان اور شرٹ کے اندرونی حصے میں خود ہی جیبیں بنانا شروع کر دیتے ہیں اور ان کی اس حرکت سے شیطان بھی اپنے آپ شرمندہ ہوجاتا ہے۔ یہاں پر اکبر الہ آبادی کے شعر کا مصرعہ کچھ یوں فٹ ہوتا ہے۔ ’’افسوس کہ ابلیس کو اسکول کی نہ سوجھی‘‘ ۴۔ چوتھا مسئلہ: چوتھا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ جناب کسی طرح پیپر پتہ چل جائے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے وہ طالب علم جو رات کو جلدی سو جاتے ہیں۔ وہ امتحانات کے دنوں میں بارہ بجے تک جاگ کر کسی دوست کی فون کال کا انتظار کرتے ہیں اور فون کرنے والے سے فریاد کرتے ہیں کہ بھلا کر تیرا بھلا ہوگا اور فقیر کی صدا کیا ہے میرے شریک غم طالب علم ساتھیو، جب ہم نے ان مسائل کے حل کیلئے عمر و عیار کے ساتھیوں کی طرح خیال کے عیار اور فکر کے جاسوس چاروں طرف دوڑائے تو ہم ان مسائل کے درج ذیل حل تلاش کر سکے۔ ۱۔ پہلے مسئلہ کا حل جو ہمیں سمجھ میں آیا وہ یہ کہ نہ تو آپ کو ہوم ورک مکمل کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی نوٹس خرید کر اپنے اماں ابا کی حلال کی کمائی ضائع کرنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ سیدھا سیدھا یہ کریں کہ موقع پا کر کلاس کے بہترین طلبہ میں سے کسی ایک کی کاپیاں غائب کر دیں۔ اس سے پہلے کہ ان کو اس واقعہ کی اطلاع ملے آپ خود اس کو جا کر بتائیں کہ یہ حادثہ رونما ہو چکا ہے۔ (یعنی چور مچائے شور) اور امتحانات کے اختتام تک وقتاً فوقتاً اس سے اظہار ہمدردی بھی کرتے رہیں۔ ۲۔ دوسرے مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں اور توکل علی اﷲ کا بہترین نمونہ بن کر دکھائیں۔ ساتھ ساتھ اﷲ سے دعا کریں اور استغفار طلب کریں۔ کہتے ہیں کہ دعا کے ساتھ دوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے یہ کر لیں کہ امتحان کے دن کاغذی دوا بھی ساتھ رکھ لیں تاکہ پیپرز کے دوران افاقہ ہوسکے۔ ۳۔ تیسرا مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہے۔ اس کا سیدھا سا حل یہ ہے کہ حل شدہ پرچہ جات اپنے ہمراہ ضرور رکھیں۔ ۴۔ چوتھے مسئلہ کے حل کیلئے اطلاعاً عرض ہے کہ بورڈ والے بھی آپ کی طرح کاہل الوجود ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ محنتی نہیں ہوتے ۔ وہ پورا پانچ سالہ پرچہ جات سے ہی بناتے ہیں اس لیے آپ کو بھی پیپر نکلوانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مسئلہ نمبر3کے حل پر فوری عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ تو جناب میرے طالب علم ساتھیو! یہ ان مسائل کے حل ہم نے آپ کو بتائے ہیں جن کا آپ کو امتحانات کے دنوں میں شکار ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے ان مشوروں پر عمل کرنے سے پہلے یہ سوچ لیجئے گا کہ اگر آپ فیل ہو گئے تو ہم بری الذمہ ہوں گے کیونکہ مشورہ مفت ہے لیکن جانے سے پہلے ایک بات کی گارنٹی ہم ضرور دیں گے کہ ہمارے مشوروں پر عمل کرنے سے سپلیاں آپ کے قدم ضرور چوم سکتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہونے والے امتحان کا نتیجہ آخرت میں بھی خراب آسکتا ہے۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
ایک خط
ایک خط
|
فاطمہ نور
|
پیاری دوست جولیا السلام علیکم! کیسی ہو امید ہے تم ٹھیک ہی ہوگی اللہ کا شکر ہے میں بھی ٹھیک ہوں تمہارا خط پڑھ کر بہت مزہ آیا تم نے اچھے انداز سے لکھاہے کہ مجھے لگ رہا تھا کہ میں بھی تمہارے ساتھ فرانس کی سیرکررہی ہوں اور یہ دیکھ کر تو میں اورخوش ہوگئی کہ تم وہاں کے مسلمانوں سے مل کر اسلام سے بہت متاثر ہوئی ہیں اور اب اسلام کا تعارف سننا چاہتی ہیں۔ پیاری دوست اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے ایک وقت آئے گا جب اسلام پوری دنیا پرغالب ہوجائے گا اسلام ایک سچا مذہب ہے جو رہتی دنیا تک قائم رہے گا اسلام ہمیں ایک خدا کو ماننے کی تعلیم دیتاہے وہی خدا جس نے یہ دنیا بنائی ایک ایٹم تک کے تین حصے کردیئے اسی کی مرضی سے ہرکام ہوتاہے وہ جسے چاہے مارتاہے جسے چاہے زندہ کرتاہے ایک دن ایسا آئے گا جب ساری دنیا کو اس کے پاس لوٹ کر جاناہوگا خود سوچوکہ جو انسان چاند تک پہنچ گیا وہ کان کے اندر موجود ایک باریک جھلی نہیں بناسکتا مانا کہ آج سائنس بہت ترقی کرچکی ہے لیکن کیا وہ اوزون تہہ میں بنے شگاف کو ختم کرسکتی ہے کیا وہ آنے والے زلزلے کے بارے میں پیشن گوئی کرسکتی ہے؟ تو آخر یہ سب کون کرسکتاہے کون کرتاہے؟ صرف اللہ کی ذات وہی خالق ہے وہی مالک ہے اللہ کا دین اسلام ہمیں ایک مکمل نظام حیات کے بارے میں بتاتاہے ایک مومن کی زندگی میں کوئی لمحہ ایسا نہیں جس کے بارے میں اسے ہدایات نہ دی گئی ہوں۔ یہ باتیں پڑھ کر تم دوسرے مذاہب کا موازنہ اسلام سے کرو۔ عیسائیت میں لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے سولی پر چڑھ کر ان لوگوں کے سارے گناہ معاف کروادیئے اس لئے اب ان کو کھلی آزادی ہے کہ وہ ہرطرح کی برائیاں کریں لیکن ان کو جنت ضرور ملے گی یہ کیسے ہوسکتاہے کہ ایک رسول نے سولی پر چڑھ کر سب لوگوں کے گناہ معاف فرمادیئے۔ جب کہ ہمارا قرآن کہتاہے کہ حضرت عیسیٰ سولی پر چڑھنے کے بجائے آسمان پر اٹھالئے گئے تھے جس شخص کو سزا ملی تھی وہ حضرت عیسیٰ کا ہم شکل تھا۔ ہندومت یہ کہتاہے کہ ان کے خدا ان کے بہت ہیں لیکن کیسے وہ بُت جن کو وہ پوجتے ہیں ان کے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ہیں وہ پتھرکے بہت جو اپنی ناک پر بیٹھی مکھی نہیں ہلاسکتے جن کے اندر جان نہیں ہے وہ بھلا بارش کیسے برساسکتے ہیں کھانا کیسے دے سکتے ہیں۔ یہودیت کے پیروکارحضرت موسیٰ کے بعد کسی کو نہیں مانتے ان کے عقائد عیسائیت سے ملتے جلتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ پہلے کی طرح وہ اب تک اللہ کی پیاری قوم ہیں لیکن اللہ ان کے گناہوں کی وجہ سے کہہ چکاہے کہ اب ان کو دنیا میں کہیں جگہ نہیں ملے گی وہ ادھر ادھر بھٹکتے رہیں گے اور آج اگر تم غورکرو تو یہی ہورہاہے۔ اب میں تمہیں اپنے دین اسلام کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت کرکے بتاتی ہوں ہمارا دین جو ایک سچا دین ہے اللہ نے اپنے پیارے نبیؐ کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہمارا دین ہمیں یہ تعلیم دیتاہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں وہی عبادت کے لائق ہے نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کسی کا باپ دنیا کا سارا نظام صرف اسی کی مرضی سے چل رہاہے اس میں کسی کا عمل دخل نہیں وہی رزق دیتاہے وہی بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔ وہ بندوں پر سترماؤں سے زیادہ مہربان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی کے لئے قرآن اتارا جس پر عمل کرنے والا چلتا پھرتا نمونہ حضورؐ ہیں ہمارا دین اسلام ہمیں نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں سے بھی اچھا سلوک کرنے کا پیغام دیتاہے۔ میرا خیال ہے کہ اب تمہیں ان باتوں سے اسلام اور دوسرے مذاہب کا فرق واضح ہوگیاہوگا تم اور وضاحت کے لئے اسلامی کتب کا مطالعہ کرو اس کے بعد فیصلہ تمہارے ہاتھ ہوگا کہ تم مسلمان ہونہ ہو میری دلی خواہش ہے کہ تم دوزخ کی آگ سے بچ جاؤ۔ فقط تمہاری دوست امبر طارق *۔۔۔*۔۔۔*
|
انکل بنے سائنسدان
|
مئی کے مہینے کی آمد کے ساتھ ہی درختوں پر ہری ہری کیریاں آنا شروع ہو گئیں تھیں۔ ایسے ہی ایک کیریوں سے بھرے درخت کے نیچے بہت سارے بچے اپنے مختلف اوزاروں کے ذریعے کیریاں گرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ’’ارے یہ کیا کررہے ہو۔ تھوڑا صبر نہیں ہوتا۔ جب پک جائیں تو کھا لینا۔ اس وقت یہ آم بھی بن جائیں گی۔‘‘ انکل تیس مار خان نے آتے ہی بچوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ ’’ لیکن انکل ہمیں تو یہ کچی ہی کھانی ہیں۔‘‘احمد نے معصوم صورت بنا کر کہا۔ ’’ارے انکل یاد آیا۔ آپ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ کچی کیریاں درخت کے بغیر بھی آم بن جاتی ہیں۔‘‘ اطہر نے اپنا ڈنڈا نیچے کرتے ہوئے کہا۔ ’’او بھئی ایسے نہیں بن جاتی بلکہ آٹے کے اندر دبانا پڑتا ہے۔‘‘ فاروق فوراً بولا جسے امی کا کیری کو آٹے میں دبانا یاد آگیا۔ ’’ارے بھئی ، تم بچے اسکول میں پڑھتے ہو لیکن پھر بھی دقیانوسی باتیں کرتے ہو۔ اب نیا زمانہ آگیا ہے۔ کچی کیریوں کو ایک ڈبے میں ایک خاص قسم کا کیمیکل رکھ کر آم بنایا جاتا ہے۔‘‘ انکل تیس مار خان نے رعب سے کہا۔ ’’اچھا انکل تو پھر تو آپ وہ کیمیکل آرام سے بنا سکتے ہیں ناں۔ آخر کو آپ اتنے بڑے بڑے کام کر چکے ہیں۔‘‘ خالد نے انکل کو مسکا لگاتے ہوئے کہا۔ ’’ارے ۔۔۔ رے۔۔۔ ہاں ہاں۔۔۔ کیوں نہیں، بلکہ یہ کیمیکل تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ او میرا مطلب ہے کیمیائی تجربہ ہے۔ میں تو لاہور کے جامعہ پنجاب میں ایک بہت بڑی تجربہ گاہ میں معاون سائنسدان کی حیثیت سے کام کرتا رہا ہوں اور کیمیائی تجربوں کے لیے سارے مینڈک میں ہی پکڑ کے لاتا تھا۔ ’’اچھا انکل، تو میں ابھی مینڈک پکڑ کے لاتا ہوں۔ اس سے آپ کیریاں پکانے والا کیمیکل بنا دیجئے گا۔ ‘‘ فہد نے جوش سے کہا۔ ’’اوہو نہیں بھئی، ایک کیمیائی تجربے کے لیے اور بھی بہت ساری چیزیں چاہیے ہوتی ہیں۔ مثلاً چولہا اور دیگر عناصر وغیرہ وغیرہ۔‘‘ ’’ انکل ہمیں کچھ ایجادات کے بارے میں تو بتائیں؟‘‘ ایک بچے نے سوال کیا۔ ’’ہاں ہاں کیوں نہیں، بلب ایڈیسن نے ایجاد کیا، ریڈیو نیوٹن نے ایجاد کیا۔ تھرمامیٹر اور ایکسرے گلیلیو نے ایجاد کیں اور ہم بھی کسی سے کم نہیں ہم نے بھی بہت سی چیزیں بنائیں۔‘‘ انکل نے فخر سے کہا۔ ’’ اچھا انکل اپنا تجربہ گاہ کا کوئی واقعہ تو سنائیں۔‘‘ فاروق نے کہا۔ ’’ ہاں تو سنو! جب میں فزکس لیب اپنے نگران پروفیسر حشمت جو کہ امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے آئے تھے ان کی زیر نگرانی تجربہ گاہ میں کام کرتا تھا تو وہ مجھ سے پہلے تو صرف نلکیاں اور دوسرے ٹیڑھے میڑھے برتن دھلواتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کے تجربوں کو ان کے شاگردوں کے ساتھ کھڑے ہو کر میں بھی غور سے دیکھتا۔ یوں میں بھی ایک سائنسدان بن گیا۔ ‘‘ انکل نے اتنا کہہ کر کالر کو جھاڑا۔ ’’تو انکل ان کے شاگردوں میں سے کوئی سائنسدان نہیں بنا۔‘‘ اطہر نے تجسس سے کہا۔ ’’ارے ان نالائقوں کو کچھ آتا تو سائنسدان بنتے ناں۔۔۔!! اب دیکھو ایک دن پروفیسر حشمت نہیں آئے تو اس دن مجھے تجربے کرانے پڑے۔‘‘ ’’اچھا انکل۔‘‘ سب بچے منہ کھول کر حیرت سے بولے۔ ’’ہاں نا۔۔۔ میں نے جرنل کھولا تو سب سے مشکل تجربہ کرانے کا سوچا۔ ’’ لیکن انکل آپ کو کیسے پتا چلا کہ وہ مشکل ہے۔‘‘ ’’ بھئی اس کی احتیاطی تدابیر میں لکھا تھا کہ اس تجربے کو بند کمرے میں کریں کیوں کہ دھماکہ بھی ہو سکتا ہے۔ اچھا تو میں کیا کہہ رہا تھا۔ ہاں پھر میں نے اپنے شاگردوں کو پہلے سامان جمع کرنے کو کہا۔ جب سب کچھ تیار ہو گیا تو میں نے ایک شارٹ کٹ مارا۔‘‘ ’’ لیکن وہ کیا انکل۔‘‘ ’’ میں نے بننے والے کیمیکل کی خصوصیات والا صفحہ جلدی سے کتاب میں پلٹا اور دیکھا کہ وہ کیمیکل ہرے رنگ کا ہوتا ہے۔ بس اب مجھے تجربہ سے پہلے ہی پتا چل گیا کہ کیابنے گا۔‘‘ ’’تو انکل وہ ہرے رنگ کا کیمیکل ہری کیریوں کو پکا دیتا ہے۔‘‘ احمد کو کیری کو آم بنانے کی پڑی ہوئی تھی۔ ’’اوہو نہیں بھئی۔ وہ دوسرا کیمیکل ہوتا ہے۔ اچھا سنو پھر آگے کیا ہوا۔ اچھا استاد وہی ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کو اپنے ہاتھ سے تجربہ کرنے کا موقع فراہم کرے۔ تو میں نے بھی اپنے شاگردوں سے کہا کہ یہ تجربہ فوراً کرکے دیکھو۔‘‘ ’’ تو انکل آپ کھڑے صرف دیکھتے ہی رہے۔‘‘ ’’ ارے دیکھتا کیا رہا؟ اتفاق سے میرے ہاتھ سے ایک جامنی سفوف والی کوئی شیشی لڑھک گئی جس پر فاسفورس لکھا تھا۔ اب دیکھتے ہی دیکھتے آگ بھڑک اٹھی۔‘‘ ’’ ہیں انکل ۔۔۔ آگ۔‘‘ ’’ہاں۔۔۔ آگ۔۔۔ لیکن وہ تو اچھا ہوا کہ مجھے اپنی نویں جماعت میں آکسیجن گیس بنانے کا تجربہ یاد تھا۔ سو میں نے جلدی سے اس تجربے سے آکسیجن بنائی اور اسے اس آگ پر انڈیل دیا۔ جس سے وہ بجھ گئی۔‘‘ ’’تو انکل پھر آپ نے وہ تجربہ تو ملتوی کر دیا ہوگا۔‘‘ ’’ارے نہیں۔ بس وہ میرا رنگسازی کا تھوڑا سا تجربہ کام آگیا جو کسی سائنسدان کے پاس نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے شاگرد کو نیلا پاؤڈر اور پیلی گندھک کا سفوف ملانے کو کہا۔ اب تم لوگوں کو تو پتا ہے کہ نیلا اور پیلا رنگ ملانے سے سبز رنگ بنتا ہے۔ بس اس طرح وہ میرا تجربہ کامیاب رہا اور ایک ہری چیز ایجاد ہو گئی۔‘‘ ’’واہ بھئی واہ۔‘‘ سب بچے حیران تھے جبکہ اطہر ایک کونے میں بیٹھا مسکرا رہا تھا۔*
|
Tuesday, 11 December 2012
آخری محافظ
|
محمدالیاس ضیاء
|
رات کے دوسرے پہر برآمدے میں عین لائٹ کے نیچے کرسی ڈالے ماسٹر اجمل کتاب کے مطالعے میں مشغول تھے۔سامنے لان کی گھاس پرچاند کی دھیمی دھیمی روشنی پڑرہی تھی جبکہ رات کی رانی کی میٹھی میٹھی خوشبودل ودماغ کوتازگی بخش رہی تھی۔گرمی کی اس رات میں ہوا کے جھونکے اور بھی خوشگور احساس پیدا کررہے تھے۔انکے برابر میں ایک اور کرسی رکھی ہوئی تھی جسکا رخ ماسٹر جی کی طرف تھا اور اس پر چھ سات موٹی موٹی کتابیں مختلف موضوعات کی رکھی ہوئی تھیں۔سلطان فتح علی ٹیپوکی زندگی اور انکے کارناموں پر ایک کتاب انکے ہاتھ میں تھی جسکامطالعہ وہ بڑی دلچسپی سے کررہے تھے۔اور دلچسپی سے کیوں نہ کرتے کہ تاریخ توان کا پسندیدہ موضوع تھا اورپھر آج تووہ ایسے کارنا مے پڑھ رہے تھے جو ہندوستان کی تاریخ میں ایسے چمکتے ہیں جیسے رات کے اندھیرے میں چودھویں کاچاند۔جرات اوربہادری کی وہ لازوال داستان کہ جورہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی اور جس کو پڑھ کر آج وہ اپنے دل میں ایک جذبہ اورولولہ محسوس کررہے تھے۔ وہ پڑھ رہے تھے کہ جس طرح ٹیپونے بیک وقت اندرونی بغاوتوں اور بیرونی دشمنوں کاڈٹ کر مقابلہ کیا وہ ثابت کر تا ہے کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اگر انسان ہمت اور حوصلے سے کام لے توبڑی سے بڑی مشکل بھی اس کے راستے کی دیوار نہیں بن سکتی۔ٹیپو کے بارے میں چند ایک مضامین تووہ مختلف اخبارات اور رسائل میں پڑھ چکے تھے مگرآج باقاعدہ طور پر پہلی مرتبہ وہ سلطان کی زندگی پرکوئی کتاب پڑھ رہے تھے ۔وہ کتاب کے مطالعے میں ایسے گم ہوئے کہ ایک سماں بندھ گیا جیسے وہ سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ رہے ہیں۔انہیں محسوس بھی نہ ہوااور انکی آنکھوں کے سامنے ایک منظر قائم ہوگیا بالکل جیسے اسکرین پر کوئی تصویر ابھرتی ہے۔ماسٹر جی نے دیکھاکہ ان کے سامنے ٹیپو کھڑاہے۔اسکے ایک ہاتھ میں تلوار ہے اوروہ مسکرارہا ہے انہوں نے حیرانگی سے ٹیپو سے سوال کیاکہ آپ ہی ہیں ٹیپو ......شیرِمیسور...؟ ٹیپو:( تھوڑاسا مسکراتے ہوئے)ہاں۔۔۔میں ہی ٹیپو ہوں۔ آپ نے مجھے شیرِمیسورکہااس کامطلب ہے کہ یہ قوم میری قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ماسٹراجمل:(جذباتی اندازمیں) ہاں بالکل!اس قوم کا ہروہ فرد جو تیرے بارے میں جانتا ہے وہ آج بھی تیری بے مثال جراء ت اورہمت کوسلام کرتا ہے ۔ ٹیپو:(مسکراکراوپرنیچے سرہلاتے ہوئے)’’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘۔ ماسٹراجمل:میں پڑھ کر حیران ہوں کہ آپ نے بیک وقت تین قوتوںیعنی نظام حیدرآباد،مرہٹوں اور انگریزوں کا کس طرح مقابلہ کیااوریہ کس طرح ممکن ہوا۔ ٹیپو:(مسکراتے ہوئے)ماسٹر جی!مجھے میدانِ جنگ ہی ورثے میں ملا تھا۔میرے والد(سلطان حیدر علی) نے بھی ساری زندگی لڑتے ہوئے گزاری تھی۔اور ویسے بھی جذبے زندہ ہوں تو کوئی کام نا ممکن نہیں ہوتا۔ ماسٹر اجمل:مگر اے بہادر باپ کے بہادر بیٹے! انگریزوں سے دوستی کرکے آپ اپنے دشمن مرہٹوں اورحیدر آبادی نوابوں سے جان چھڑانے اور اپنی سلطنت کو بھی بچانے میں کامیاب ہوسکتے تھے ۔ ٹیپو:(افسوسناک قہقہہ لگاتے ہوئے) دوصدیاں گزر جانے کے بعدبھی میری قوم کو یہ بات سمجھ نہ آئی (اچانک سنجیدہ ہوتے ہوئے)انگریزوں کی دوستی مرہٹوں کی دشمنی سے زیادہ خطرناک تھی ماسٹرجی ی ی۔۔۔ ماسٹراجمل:میں نے کہیں پڑھایاشاید سناہے کہ جس دن تیراجنازہ اٹھااس دن آسمان بھی رویا تھا۔خوب پانی برسا اور خوب بادل گرجا تھا۔ ٹیپو:ماسٹر جی میں تو بے نیاز تھاکہ کون رویا اور کون برسا مگر وہ جنازہ صرف میرا جنازہ تو نہیں تھابلکہ ہندوستان کی آزادی اور مسلمانوں کی بادشاہت اور اقتدار کا جنازہ تھا۔جس دن میرا جنازہ اٹھا کیا اس کے بعد سے آج تک ہندوستان کے لوگ آزاد ہوئے؟ ماسٹراجمل: (تلملاتے ہوئے )مگر اے شہیدِوفا!تجھے شکست ہوئی کیسے ؟توتوجرأ ت کا پہاڑ تھا؟ ٹیپو:(غمناک آواز میں)آہ۔۔۔ وہی اپنے لوگوں کی غداری نے ہندوستان کو ڈبودیا۔ورنہ(اچانک غصے میں آتے ہوئے) مجھے قسم ہے ربِ کعبہ کی ہندوستان سے صرف انگریزوں کی لاشیں جاتیں لاشیں۔ ماسٹر اجمل :میں چاہتاہوں کہ آپ کے کارنامے خود آپ سے سنوں ۔ ٹیپو:میرا کوئی کارنامہ نہیں ہے ماسٹر جی! میں نے تو بس ہندوستان کو انگریزوں سے بچانے کیلئے اس کے دفاع کی آخری جنگ لڑی تھی اوربھلامیراکیا کارنامہ ہے؟؟ ماسٹراجمل:(اداسی کے ساتھ )اور اس آزادی کے دفاع کی جنگ میں اپنی جان بھی قربان کردی...یہی تو کارنامہ ہے... آپ نے اتنی بڑی قربانی دی مگر اے شہید!نئی نسل توتجھے جانتی تک نہیں۔ ٹیپو:(ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے)ہاں ماسٹرجی نئی نسل تو صحابہ کو نہیں جانتی کہ جن کے ذریعے اسلام ہم تک پہنچا۔ ماسٹر اجمل :مگراس کاذمہ دار کون ہے؟ ٹیپو:اس کے سب سے بڑے ذمہ دار آپ ہیں ماسٹر جی !!آپ ایک استاد ہیں۔ آپ کااس قوم کے بچوں کے ساتھ براہِ راست رابطہ ہے آپ نے کبھی بتایا ان کو ہمارے بارے میں؟بتائیں؟؟استادہی نہیں بتائے گا توکیا فرشتے اتریں گے انکو بتانے کیلئے؟؟ یہ سن کر اچانک ماسٹر اجمل کو ایک جھٹکا سا لگا اور وہ کرسی سے گرتے گرتے بچے اوران کی آنکھ کھل گئی۔وہ اس بات پر انتہائی حیران ہوئے کہ وہ نیند کے اتنے کچے تو نہ تھے پہلے بھی انہوں نے رات رات بھر جاگ کر مطالعہ کیا تھامگرزندگی میں کبھی بھی اس طرح انہیں نیند نہیں آئی تھی۔پھر آج نہ جانے کیا ہو گیا تھا۔دوسرے دن وہ کلاس میں داخل ہوئے تو ان کاپہلا سوال تھاکہ آج تاریخ کیا ہے؟جواب ملا۔۔۔ ۴مئی۔انہوں نے پھرسوال کیا کوئی بتاسکتاہے کہ۴مئی کادن ہندوستان کی تاریخ میں کیوں اہم ہے۔کلاس میں خاموشی چھا گئی۔ماسٹراجمل پھر گویا ہوئے،یقیناآپ لوگوں کے علم میں نہیں ہوگاکہ۴مئی۱۷۹۹ء کوٹیپو سلطان شہید ہوا۔ٹیپو سلطان کون تھا؟ماسٹراجمل نے تیسرا سوال کیا۔ کلاس میں خاموشی چھائی رہی۔ انہوں نے خودہی اس خاموشی کوتوڑا۔ میں آپ کو آج تفصیل سے بتاؤں گاکہ وہ کون تھااور اس نے کون سا خاص کام کیا۔اچانک ان کی نظر دروازے کی طرف اُٹھ گئی۔ انہیں ایسا لگاجیسے وہ بیداری میں خواب دیکھ رہے ہوں۔انہیںیوں محسوس ہوا جیسے ٹیپو دروازے کی چوکھٹ پر کھڑامسکرارہا ہواور کہہ رہاہوواہ ماسٹر جی.. واہ کمال کردیا آپ نے۔ ہاں اب ہو گی نئی نسل کو ہمارے بارے میں شنا سا ئی اوراب اِن کوپتاچلے گا کہ ہم کون تھے اور کہاں گئے ۔اور..ہاں ان کو یہ بھی بتائیے کہ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہترہے‘‘۔ *۔۔۔*۔۔۔*
|
Subscribe to:
Posts (Atom)